اسکو(انٹرنیشنل ڈیسک) دیمیتری ترینن، جو روس کی بین الاقوامی امور کی کونسل (RIAC) سے وابستہ محقق اور تجزیہ نگار ہیں، اس مضمون میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ درحقیقت پہلے ہی شروع ہو چکی ہے، بس دنیا کا ہر شخص اسے ابھی تک اس کی حقیقی شکل میں پہچان نہیں سکا۔
جنگ کا نیا چہرہ
یہ جنگ کسی روایتی حملے یا کیوبا میزائل بحران جیسے ایٹمی تعطل سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ یہ منتشر، پیچیدہ اور مسلسل جاری رہنے والی لڑائی ہے، جو کئی شکلوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں لڑی جا رہی ہے۔
جنگ کا آغاز: روس، چین اور ایران کے لیے مختلف وقت
ترینن کے مطابق روس کے لیے جنگ کا پیش خیمہ 2014 میں کریمیا کے الحاق کے بعد ختم ہو گیا تھا، چین کے لیے یہ 2017 میں اور ایران کے لیے 2023 میں مکمل ہوا۔ ان کے بعد سے یہ جنگ مختلف شکلوں میں شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
یہ جنگ صرف سرد جنگ نہیں بلکہ ایک ایسا ٹکراؤ ہے جس میں دنیا کی بڑی طاقتیں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث ہیں۔
مغرب کا ایجنڈا: روس اور چین کا ابھار ناقابلِ قبول
مغرب، خاص طور پر امریکا اور اس کے اتحادی، چین کے ابھار اور روس کی واپسی کو اپنے عالمی غلبے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ مغرب چاہتا ہے کہ ایک ایسا عالمی نظام قائم رہے جہاں صرف مغربی اقدار، نظام اور مفادات کو بالادستی حاصل ہو۔
ترینن لکھتے ہیں کہ مغربی طاقتیں کسی متبادل تہذیبی ماڈل کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ان کی نظر میں قومی خودمختاری اور تہذیبی آزادی خطرہ ہیں، نہ کہ اختیارات۔
’اسٹریٹیجک شکست‘ یا مکمل تباہی؟
ترینن کا کہنا ہے کہ جب امریکی صدر جو بائیڈن نے برازیلی صدر لولا سے کہا کہ وہ روس کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، تو انہوں نے اصل نیت کو بے نقاب کیا جو ’اسٹریٹیجک شکست‘ جیسے مہذب الفاظ کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔
ان کے مطابق حالیہ برسوں میں اسرائیل کے غزہ، لبنان اور ایران پر حملے اور روسی ہوائی اڈوں پر حملے، اس وسیع حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ ان حملوں میں مبینہ طور پر امریکا اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔
جنگ کا مقصد: قبضہ نہیں، انتشار
ترینن کے مطابق یہ جنگ کسی خطے پر قبضے کے لیے نہیں بلکہ مخالف ممالک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اس کا مقصد معیشت کو تباہ کرنا، سماجی خلفشار پیدا کرنا اور نفسیاتی طور پر کمزور بنانا ہے۔
مکمل جنگ اور غیر انسانی پروپیگنڈا
یہ جنگ صرف فوجی نہیں بلکہ ہمہ جہتی (Total War) ہے۔ ڈرون حملے، سیاسی قتل، صحافیوں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنانا، حتیٰ کہ رہائشی علاقوں، اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی جان بوجھ کر نشانہ بنانا اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
ساتھ ہی ساتھ روسیوں کو مغربی میڈیا میں غیر انسانی انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ عام عوام جنگ کو جائز سمجھیں۔
مغرب کی کمزوریاں اور روس کی حکمت عملی
ترینن لکھتے ہیں کہ اگرچہ مغرب کی طاقت اس کی اندرونی وحدت اور عوامی ذہن سازی میں ہے، مگر یہ وحدت ناقابل شکست نہیں۔ یورپ کے کئی ممالک جیسے ہنگری، سلوواکیا اور جنوبی یورپ کے دیگر ممالک اس تصادم میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
روس کو چاہیے کہ ان اندرونی اختلافات کو وسعت دے اور مغرب کی یکجہتی کو توڑے۔
سفارتی اور عسکری حکمت عملی
ترینن مشورہ دیتے ہیں کہ روس کو داخلی سطح پر خود کو مضبوط کرنا ہوگا، جیسے کہ معاشی، سائنسی، آبادیاتی اور صنعتی میدان میں جدید متحرک پالیسیاں اپنانی ہوں گی۔
بین الاقوامی سطح پر روس کو اپنے اتحادیوں کو مزید فعال کرنا ہوگا۔ بیلاروس مغرب میں ایک مضبوط ساتھی ہے، شمالی کوریا مشرق میں قابلِ اعتماد ہے، مگر جنوب میں ایک اسٹریٹیجک شراکت دار کی کمی ہے۔
ٹرمپ سے فائدہ لیکن احتیاط ضروری
ترینن لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی نے عارضی طور پر امریکا کو یوکرین سے کچھ پیچھے ہٹایا ہے، لیکن یہ مستقل حکمتِ عملی نہیں بلکہ وقتی موقع ہے۔ امریکی اشرافیہ اب بھی روس سے دشمنی رکھتی ہے۔
اگر جنگ بڑھی تو پیشگی اقدام ناگزیر
ترینن خبردار کرتے ہیں کہ اگر تصادم ناگزیر ہو جائے تو روس کو پیشگی اقدامات پر غور کرنا چاہیے، ابتدا میں روایتی ہتھیاروں سے، اور اگر ضرورت پڑے تو ایٹمی طاقت کو بھی بروئے کار لانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے، لیکن مکمل ادراک اور ذمہ داری کے ساتھ ۔
اب واپسی کا وقت نہیں
ترینن اپنے مضمون کا اختتام اس اعلان سے کرتے ہیں کہ اب واپسی ممکن نہیں، ہم ایک عالمی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ روس جرأت، حکمت اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھے اور ایک نئے عالمی نظام میں اپنا باوقار مقام حاصل کرے۔