نظام الدین
سورة النمل – آیت 20 ،
سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کہ کیا بات ہے میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں یا وہ غائب ہونے والوں میں سے ہے.
اس ( آیت) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہترین حکمراں جو ہوتے ہیں وہ اپنی رعایا کے حالات سے باخبر رہتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہے، غور کریں کہ ہدہد جیسے چھوٹے سے پرندے کی حالت بھی سلیمان علیہ السلام سے چھپی نہیں تھی ،،
ایسی طرح جب قومیں کسی بحران ، انتشار اور بے سکونی سے گزر رہی ہوں تو اس وقت حاکم یآ قوم کے سرکردہ افراد کو اپنی اصل قائدانہ صلاحیت کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے ۔آگر وہ قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہوں تو پھر قوموں کا اجتماعی شعور بیدار ہونا فطری عمل ہوتا ہے ، پھر کوئی چاہئے یا نہ چاہئے کوئی نہ کوئی بے باک قیادت محروم محکوم قوموں میں سے ہی ابھر کر سامنے آتی ہے جیسے کہ بارش کا نزول ہوتا ہے اور فصلیں لہلہانے لگتی ہیں ،، اسی طرح لوگ جو پہلے ہی سے پیاسے ہوتے ہیں غیر شعوری طور پر اس کی آواز پر لبیک کہنا شروع کر دیتے ہیں،
مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد اج کل اخبارات اور سوشل میڈیا کی سرخیوں میں نمایاں نظر آرہے ہیں ، انہونے 12اپریل سے شہر کراچی میں حکومت کے غیر منصفانہ سلوک اور ٹینکر ؤ ڈمپر مافیا کے خلاف سفید کپڑا تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کور کمانڈر ، ڈی جی رینجرز، سے اپیل کی ہے کہ وہ ممنوع اوقات میں ڈمپر ؤ ٹینکر کو رہائشی علاقوں میں آنے سے روکھیں اور عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ سندھ حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف 12 اپریل کو سفید کپڑے کا جھنڈا لے کر گھروں سے نکلیں ،
علامہ اقبال نے قوموں کی قیادت کا فلسفہ اپنے اشعار میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
مگر کبھی تمام خصوصیات کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی تحریک کا لیڈر اپنی زندگی میں مطلوبہ منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گا اور کبھی اگر کسی تحریک کو اپنے مقصد میں ناکامی بھی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اس کے فیصلے میں کوئی نقص تھا یا وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوگیا لیڈروں کے ناکام ہونے سے تحریکوں کے مقاصد اور نصب العین کی ناکامی نہیں کہی جاسکتی ۔ لیڈر بدلتے رہتے ہیں جلاوطن ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں یاپھر قتل بھی کر دیئے جاتے ہیں ، لیکن تحریکیں اپنے مقصد کے تئیں آگے بڑھتی رہتی ہیں وقت کے حکمران تاریخ کو کتنا ہی مسخ کیوں نہ کر یں انسانی تاریخ ان مٹ واقعات، انقلابات، شخصیات، تحریکوں اور انقلابی ادوار سے بھری پڑی ہیں ایسی بے شمار مثالیں ہمیں مختلف ادوار کی تحریکوں میں ملتی ہیں جو اپنے ارتقاءکے اتار چڑھاؤ اور منازل طے کر کے اس نہج پر پہنچیں کہ اس دور کے نوجوانوں کی میراث بن گئیں ، جبکہ کہ ان تحریکوں کی تاریخ اور افادیت سے اکثر مستقبل کی نوجوان نسل انجان رہی یا انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوا ؟ ، مثال کے طور پر
۔اٹھارہویں صدی کے جدید سائنسی انقلاب کے بعد اور خاص طور سے ترکی میں سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد سید اسماعیل شہید سے لیکر سید علی برادران اور شبلی کے بعد مولانا ابوالکلام سے لیکر مولانا مودودی جناح اور اقبال کی شکل میں کئی ایسے قوم کے ملاح پیدا ہوئے جو اپنی قوم کا درد رکھتےتھے ، ریشمی رومال تحریک ، چپاتی تحریک ، اور خواتین کی دوپٹہ تحریک وہ تحریکیں ہیں جو اپنے زمانے میں برطانوی راج کے خلاف چلائی گئیں، مگر افسوس آج ایسا وقت آگیا کہ ان تحریکوں کو چلانے والوں کی نسلوں کو سندھ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت پیش آرہی ہے پیپلز پارٹی کی حکومت تین عشروں سے سندھ میں قائم ہے اور وہ کراچی کے شہریوں سے اتنی ناراض ہے کہ کوئی سوتیلی ماں بھی اتنا ناراض نہیں ہو سکتی۔ ریاست کی سہولت کاری کے ساتھ پیپلز پارٹی کراچی کی میئر شپ پر شب خون مار چکی ہے ، میئر شپ حاصل کرنے کے باوجود ناراضگی اور غصہ کم نہیں ہو رہا اب وہ سندھ کی گورنر شپ پر بھی تنقید کر رہی ہے ، اور شہر میں مختلف مافیاز کا راج قائم کیا ہوا ہے ، شہری سہولتیں کم ہوتے ہوتے اب ناپید ہوچکیں ہیں مگر پیپلز پارٹی کا غصہ اور نفرت کم ہونے میں نہیں آرہی جس کی مثال
سندھ حکومت کے نمائندے ہیں جو نفرت وحشت اور اشتعال انگیزی کی علامت بنے ہوئے ہیں ایک نجی چینل کے پروگرام میں سندھ حکومت کے ترجمان نادر گبول فرما رہے تھے کہ مہاجر 1947 میں انڈیا سے اٹھ اٹھ کر کراچی آئے تھے ان کی وجہ سے آج کراچی کا یہ حال ہو چکا ہے، یہ نمائندے ان مہاجروں کے خلاف فضاؤں میں زہر گھول رہے ہیں جو آگر یوپی، سی پی، بہار پنجاب کشمیر ، راجستھان بنگال سے ہجرت نہیں کرتے تو پاکستان دنیا کے نقشے پر اس طرح ابھر کر سامنے نہیں آتا جیساکہ اب ہے ، مہاجروں کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے والے اب اپنے غرور کی آخری سرحدوں پر کھڑے ہیں؟؟؟