تحریر۔نظام الدین
انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے بچپن لڑکپن گزارتا ہے. جوان ہوتا ہے اور بوڑھا ہوکر مر جاتا ہے. مرنے کے بعد اس کی روح اس مقام پر ایک دن ضرور آتی ہے .اگرچہ وہ شخص اس زمین سے محبت نہیں بھی کرتا ہو
لیکن وہ زمین اس شخص کے وہاں بیتے دنوں میں محبت کرنے لگتی ہے. اور زمیں کی محبت یا اس کی کشش
اس شخص کی روح کو وہاں آنے کے لیے مجبور کر دیتی ہے کیونکہ یہ زمیں اور روح کے پیار کا رشتہ ہوتا ہے،
میرا پہلا پہلا پیار کراچی
سے اس وقت شروع ہواجب کراچی خوبصورت ابرألود موسم پھولوں اور درختوں کا شہر ہوا کرتا تھا. شام کے سائے میں سمندر سے آنے والی ہوائیں دل میں جینے کی امنگ پیدا کر دیتی تھیں ، یہلی مرتبہ میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ جب پرانی نمائش چورنگی پر أیا تب صبح کا وقت تھا ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی پہلی مرتبہ میں نے دس نمبر بس کو وہاں دیکھا تھا,
دوسری مرتبہ اپنے دوست راشد کے ساتھ اسکول سے غوطہ لگا کر صدر کپیٹل سینما میں میڈ میڈ والڈ فلم دیکھی,
لیکن جب والد صاحب کے ساتھ منوڑا کے جزیرے پر گیا تو جزیرے کو دیکھ کر میں کراچی کے عشق میں پوری طرح گرفتار ہوچکا تھا , اس جزیرےکودیکھ کر میرے دماغ میں بے شمار سوالات نے جنم لیا ؟
یہ کیسے.وجود میں آیا ؟
اس سے کیا فائدہ ہے ؟
وغیرہ وغیرہ اس سے متعلق والد صاحب سے سوال بھی کیا انہونے بتایا جب سے یہ زمین وجود میں أئی ہے تب سے اس پر تبدیلیوں کا سلسلہ ایک ترتیب ؤ تنظیم کےساتھ جاری ہے انہی تبدیلیوں کے نتیجے میں زمین کے بہت سے خشک حصے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور بہت سے نئے جزائر سطح سمندر پر ابھر آتے ہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ ہزاروں میل تک خشکی کا بڑا حصہ سمندر برد ہوجاتا ہے یا پھر سمندر پیچے ہٹنے سے نئے ساحل ابھر آتے ہیں کیونکہ قدرت نے یہ دنیا کچھ اسی ڈھنگ سے بنائی ہے ,
بچپن کے یہ سوالات سندھ کے
تمام جزیروں تک مجھے لیکر
گئے کوئی جزیرہ ایسا نہیں تھا جہاں میں اپنے دوستوں کے ساتھ گیا نہ ہوں, پھر. زندگی بہت مصروف ہوگی مضطرب, پرأشوب, تھکا دینے والی,
سورج کی جھلسا دینے والی تپش, ٹریفک کا.دھواں,
بے ہنگم آوازوں کا شور,
سروں پر منڈلاتے خطرات بڑھتے گئے, ان حالات کو درست کرنے. اور کراچی کو ترقی یافتہ شہربنانےکی نوید ہر آنے والی سرکار نے سنائی, لیکن پھر
ترقی کے نام پر کیاہوا ؟
اس پر ہزاروں مرتبہ لکھنے والے لکھ چکھے ڈرامیں فلمین بن چکی: کراچی کی ترقی کے لیے جتنا لکھا گیا بولا گیا کراچی اتنا
کرچی کرچی ہوتا گیا:
یعنی جتنی دوا کی مرض اتنا بڑتا گیا حالیہ دنوں کراچی اور بلوچستان کے جزیروں کی ترقی کے نام سے وزرات برائے سمندری امور کی ویب سائٹ . پاکستان أئی لینڈ ڈیولمنٹ
اٹھا رٹی آرڈیننس 2020 جو 25 صفحات پر مشتمل ہے
اس آرڈیننس کا مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا اس کے مطابق وفاقی حکومت بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر جدید شہر بسانے کا ارادہ رکھتی ہے
میں یہاں یہ بتاتا چلوں دنیا میں کچھ خطے انسانی أبادی کے لیے نہیں ہوتے وہ زمیں قدرت کے فطری نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ہوتی ہے جیسے ایمیزون کے جنگلات
ریگستان دریائی راستے
وہ دریا جو قدرت کے فطری راستوں پر چل کر سمند میں گرتے ہیں انکے فطری راستوں کو روکنا اس طرح قدرت کے دیگر فطری نظام میں جن قوموں نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تاریخ کے صفات میں انکا نام نہیں ملتا قدرت کے اس فطری نظام کو بچانے کے لئے ایک بین الاقوامی معاہدہ بھی موجود ہےجس کے تحت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود نم زمینوں جنگلی آبی حیات کی پنا گاہوں جھیلوں جزیروں کو محفوظ رکھنے کا ہر ملک پابند ہے, اس معاہدے کے تحت وہ تمام جزائر ساحلی علاقے اور جھیلیں شامل ہیں جو دریائے سندھ اور دوسری ندیوں کے سمندر میں گرنے سے قدرتی طور پر وجود میں آئی ہیں. ان ویٹ لینڈز کا کل رقبہ 80لاکھ 73ہزار 431 ہیکٹر ہے . ان پر 3349 ہیکٹر کے وسیع رقبے پر تیمر کے جنگلات موجود ہیں یہاں پر 50 سے زائد پودوں پرندوں انواع اور دنیا کے نایاب کچھوے سانپ 50 سےزائد پرندوں کے مقامی انواع اور ہزاروں سرمائی پرندوں کا مسکن ہیں، غرض یہاں مختلف چرند پرند حشرات الارض کی تمام رنگینی پائی جاتی ہے,
اسی طرح یہ جزائر قدرتی
ماحولیاتی اور توانائی کے وسائل سے بھی مالامال ہیں
2007 میں توانائی کی تلاش کے لیے کراچی کے ساحل سے 230 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع انڈس جی بلاک میں کھودے جانے والے کنویں کیکڑا ون سے نمونے نکال کر بیرون ملک لیبارٹریوں میں بھیجے گئے تھے, اس رپورٹ کی بنیاد پر .
پاکستانی کمپنیاں.او جی ڈی ایل، پی پی ایل، اطالوی کمپنی آئی این آئی اور امریکن کمپنی ایگزون موبل نے مشترک اپریشن کیا امریکن کمپنی اس طرح کے منصوبہ میں پہلی مرتبہ شراکت دار شامل تھی
جتنی تیزی سے اس منصوبہ پر کام شروع ہوا تھا اتنی خاموشی سے کام بند کردیا گیا؟
جبکہ پوری دنیا کے سائنس دان جنگل . صحرا. قطبین .سمندر. یا اپنے قرب وجوار کے فلکیاتی اجسام پر تفصیل سے سائنسی تحقیق کرتے ہیں اور گہرے سمندروں کی تہہ کو بھی سائنسی اور معاشی فائدوں کےلیئے کھنگال رہے ہیں.
لیکن پاکستان میں سمندری معدنیات اور اسکی توانائی کو نظر انداز کرکے سمندر کے جزیروں میں آبادکاری کی منصوبہ بندی کررہےہین,
جبکہ سب سے اہم بات
یہ جزیرے انڈس ڈیلٹا کا حصہ ہیں اور انڈس ڈیلٹا بین الاقوامی تحفظ یافتہ رامسر سائٹ میں شامل ہے اور پاکستان رامسر کنونشن کا توثیق کنندہ ہے جبکہ ان جزائر کے ختم ہونے کی صورت میں مستقبل میں سمندری طوفان یا سو نامی کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ سمندر کی تیز لہریں ہمیشہ اپنی توانائی سب سےپہلے سامنے آنے والے علاقوں پر منتقل ہوتی ہے اور ایسے سمندر جہاں سے بفرزون جزائر اور اس کی فطری اجزا کو ختم کردیا گیا ہوں. وہاں سمندری طوفان یا سونامی کا پہلا اٹیک ساحلی شہر ہوتے ہیں
جس کی مثال جاپان آور انڈونیشیاء میں آنے والی سونامی ہیں ان ممالک نے اپنے جزائر پر انسانی آبادی قائم کردیں ہیں . مورخین نے کراچی کے ان جزائر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں سے مختلف قوموں کے قدیم آثار مکانات اور نوادرات ملے ہیں.
محکمہ آثار قدیمہ نے لکھا ہے
یہ جزارئر 300 سال سے 1000 سال پرانے ہیں یہ قدرتی وسائل سے مالامال ہیں ان جزائر کے اردگرد سمندر میں مسام دار چٹانیں کیچڑ اور وہ تمام آثار موجود ہیں جہاں. تیل ؤ گیس جیسے زخائر موجود ہوتے ہیں
یہ تحقیق برطانوی دور میں
ان جزائر پر تحقیقاتی کام کے دوران ہوئی تھی جب کراچی کے لیے 1923اور 1945میں ماسٹر پلان بنایا گیا تھا
آن دستاویزات کے مطابق ان جزائر پر انسانی آبادی کراچی کے ماحولیاتی نظام میں بگاڑ کاسبب بن سکتی ہے اود بحرے عرب میں اٹھنے والے طوفان کراچی کے ساحل تک پہنچ سکتے ہیں. اس کی سائنسی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں.
کراچی گوادر ٹھٹھ بدین خطہ استواء. یعنی اس لائن سے زمین کے. شمالا جنوبا دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اس لائن کے آس پاس جتنے بھی علاقے آتے ہیں وہاں کا درجہ حرارت زیادہ تر گرم ریتا ہے کیونکہ زمیں کے اس حصے ہر سارا سال سورج سامنے رہتا ہے اس لئے یہ سال کے زیادہ تر مہینوں میں گرم رہتے ہیں سردیوں میں بھی یہاں کا درجہِ حرارت کچھ خاص نہیں بدلنا اس لیے اس خطے کے موسم کو برقرار رکھنے میں یہ جزیرے اہم کردار ادا کرتے ہیں ،
جبکہ برطانیہ سے آزادی کے بعد کراچی کیلیے1951، 1974، 2000 اور 2007 میں ماسٹر پلان بنایا گیا تھا شہر کا چھٹا ماسٹر پلان کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020 جو 2007میں تشکیل پایا گیا تھا
جسے ہر آنے والی حکومت نظر انداز کر دیتی ہے؟
جبکہ ان ماسٹر پلان کے دستاویزات میں درج حیرانگیز بات یہ ہے کہ 2020 تک کراچی کی ابادی دو کروڑ 75لاکھ تک پہنچ سکتی ہے؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا اس آبادی کو ساحل سے دور رکھنے کے انتظامات کیے جاتے,
لیکن حکومت تو کراچی کو ماحولیاتی توانائی فراہم کرنے
والے جزائر پر آبادکاری کا منصوبہ بناتی رہی اور دوسری طرف دریائے سندھ کے آخری حصے تک پانی کی کم ہوتی مقدار اتنی کم ہوتی گئی جس سے الٹا سمندر کا پانی دریائے سندھ میں آنا شروع ہوگیا جو سراسر سندھ اور کراچی پر ظلم ہے ،،