میں کیوں لکھتا ہوں ؟

تحریر۔نظام الدین

میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ کالم لکھنے سے بہتر ہے ویڈیو کے زریعے بولنا شروع کردو اب پاکستان میں مطالعہ کرنے کا رجحان ختم ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق ویڈیو فارمیٹ کو اپنانا اس لیے ضروری ہے کیونکہ آج کل زیادہ تر لوگ موبائل یوزر ہیں، اور ویژوئل کانٹینٹ زیادہ جلدی، زیادہ لوگوں تک اور زیادہ مؤثر انداز میں پہنچتا ہے۔ ویڈیو پلیٹ فارم جیسے یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر پیغام کو وائرل کر سکتے ہیں، جبکہ آپ کا لکھا کالم صرف محدود طبقے تک پہنچتا ہے۔ اس لیے دانشمندی اسی میں ہے کہ دونوں فارمیٹ ساتھ لے کر چلوں تحریر آپ کی شناخت، ریفرنس اور کلاس کی علامت بنے ، جبکہ ویڈیو کے اثر، رسائی اور موجودہ میڈیا ٹرینڈز کا جواب بنے؟
میں اپنے ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتانا یہ چاہتا ہوں کہ لکھنے کا عمل خیالات کے طلسماتِ کی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں سے لکھاری کو مسلسل نئے خیالات اور نئی چیزوں کی شکلیں اس کے زہن میں آتی رہتی ہیں اور وہ نئی ایجادات کا موجد کہلاتا ہے ، اس لیے تحریر ہمیشہ سنجیدہ اور باوقار قارئین تک رسائی کا بہترین ذریعہ رہی ہے ، خاص طور پر وہ لوگ جو تحقیق ، حوالہ جات اور گہرائی سے سوچنے کے عادی ہیں ، جبکہ ویڈیو کے زریعے بولنے والے سوچوں کے نہیں حالات کے محتاج ہوتے ہیں ، اور لکھاری کو حالات متاثر نہیں کرتے وہ خیالات کا محتاج ہوتا ،،،
آتے ہیں غیب سے مضامین خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے ،
دراصل یہ جو آواز کی میڈیا ہے خاص کر عالمی میڈیا وہ چوبیس گھنٹے سیاست دانوں سرمایہ داروں اور طاقت ور افراد کے لیے مہارت کے ساتھ لوگوں کی عقلوں کی جبری تسخیر پر لگا ہؤا ہے، مثال کے طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقصد روزانہ کی بنیادوں پر عالمی خبروں پر حاوی رہنا ہوتا ہے تاکہ گفتگو کی شرائط وہ طے کرسکیں اور ان کے ناقدین اپنا تمام وقت ان کے خلاف ردعمل دینے میں لگادیتے ہیں ؟
خلاصہ یہ ہوا کہ آج کل کا عالمی میڈیا ہمارے ساتھ اسی فنی مہارت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ عالمی براڈ کاسٹنگ کارپوریشنز ، ٹی وی چینلز اور فلمی اسٹوڈیوز صرف انہیں شخصیات اور حالات پر اس زاوئے سے روشنی ڈال رہے ہیں۔ جو ان کے سیاسی، مذہبی، علاقائی اور مادی منافع اور قربتوں سے متعلق ہوں۔ اس میں حق اور سچ کے زاویے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ عالمی میڈیا چوبیس گھنٹے اسی فنی مہارت کے ساتھ لوگوں کی عقلوں کی جبری تسخیر پر لگا ہوا ہے۔ مشرق سے مغرب تک آج عالمی میڈیا پر مسلط قوتیں ہمیں صرف اپنے اینگل سے حالات دکھارہی ہیں۔ اسی مہارت کو انسانی عقلوں کی جبری تسخیر یا انسانی دماغ کا ناجائز استحصال کہا جا تا ہے۔ یہ جبری تسلط صرف شخصیات تک محدود نہیں بلکہ اقتصادی سیاسی سماجی اور معاشرتی طور پر بھی یہ جبری تسلط جاری ؤ ساری ہے ، “یعنی” اتنا زیادہ جوٹ بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے ،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *