تحریر۔نظام الدین
یہ داستان بے ضمیر لوگوں کی
سسکیاں ہیں بے گناہ لوگوں کی
یہ ففط ریل کہانی نہیں لوگوں
یہ جعفر پہ لہو کہانی ہے لوگوں,
بے گناہ انسانوں کے خون بہنے پر ضمیر کا بے چین ہونا انسان کے اندر خدا کی ایک لطیف، مدھم مگر انتہائی طاقتور سرگوشی پیدا کرتا ہے ، اور یہ باطنی شخصیت کا سب سے روشن اور معتبر حصہ ہے۔ اگر انسان اس الہامی آواز کو نظر انداز کرنا شروع کر دے، تو اس کا روحانی توازن اور ذہنی سکون متاثر ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو دھیرے دھیرے اس کی زندگی کا مکمل سکون تباہ ہو جاتا ہے۔ ضمیر انسانی شخصیت کی تعمیر کا وہ پوشیدہ معمار ہے جو اندرونی خلفشار، جذباتی بھٹکاؤ اور ذہنی الجھنوں سے محفوظ رکھتے ہوئے سچائی، خیر اور انصاف کی طرف گامزن کرتا ہے۔ انسانوں کو اپنے دل کی اس آواز کو دبنے نہیں دینا چاہیے، بلکہ اس کی لطیف سرگوشیوں پر دھیان دینا چاہیے۔ یہ آواز ہمارے اندرونی زخموں کو شفا دے سکتی ہے اور ہمیں حقیقی معنوں میں خود شناسی اور روحانی بالیدگی کی منازل طے کرا سکتی ہے۔ ضمیر کی یہ آواز دراصل ایک فطری معالج ہے، جو ہماری روح اور ذہن دونوں کو متوازن رکھتی ہے۔ اسے سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔
۔ اگر کوئی شخص بے گناہوں کے خون پر اپنے ضمیر کی آواز نہ سنے اور مثبت ردعمل کے بجائے منفی کردار ادا کرئے تو وہ زہنی مریض تو ہوسکتا ہے نارمل انسان نہیں ،
کیونکہ وہ لہو کے داغ کپڑوں پر جمے زخموں کی مانند ہوتے ہیں، جو نہ وقت کی دھول سے مٹ سکتے ہیں اور نہ کسی دھلائی سے صاف ہو سکتے ہیں۔ ہر دھبہ ایک فریاد ہے، ہر نشان ایک کہانی سناتا ہے۔ یہ داغ کپڑوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر ایسی گہری لکیریں چھوڑ جاتے ہیں جنہیں چھپانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ مظلوموں کے لہو کے داغ نہ مٹتے ہیں اور نہ مدھم ہوتے ہیں؛ یہ روح میں اتر کر دائمی زخم بن جاتے ہیں، جو تاریخ کی گواہی دیتے رہتے ہیں۔ جیسے
” سانحہِ جعفر ایکسپریس بلوچستان کے مظلوموں کے خون سے جڑے حقائق کو مسخ کرنا اور ظالموں کے دامن پر لگے داغوں کا دفاع کرنا ان داغوں کو چھپانے کی کوشش کرنا؟؟
بےضمیر لوگوں کی آنکھوں میں وہ خون آلود داغ مزید واضح ہوتے چلے جائیں گے ۔
یہ خون معصوموں کی چیخوں سے رنگین ہوا تھا، اور اس کی گواہی وقت کی زمین پر ہمیشہ قائم رہے گی۔
یاد رہے مظلوموں کے خون کی سرخی ہمیشہ گواہی دیتی ہے اور ظالموں کی کوششوں کو ناکام بناتی ہے۔ یہ خون کسی بھی دھلائی اور برین واشنگ سے صاف نہیں ہوسکتا بلکہ نسل در نسل ظالموں کے ضمیر کا پیچھا کرتا رہتا ہے ، تاریخ کو مٹانا ممکن نہیں، کیونکہ وہ مظلوموں کی چیخوں میں گونجتی ہے اور رہتی دنیا تک ظالموں کے کردار پر ایک نہ مٹنے والا داغ چھوڑ جاتی ہے۔
جھوٹ چاہے کتنی ہی چمک دار ملمع کاری کے ساتھ پیش کیا جائے، سچ کی کرنیں اسے چیر کر باہر آ ہی جاتی ہیں،،،