تحریر۔طارق خان ترین
بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” (ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ) کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں غیر قانونی اور خفیہ کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ اس ایجنسی کا مقصد صرف بھارت کے ریاستی مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ خطے کے امن کو سبوتاژ کرنا اور ہمسایہ ممالک میں انتشار پھیلانا بھی ہے۔ را کی سرپرستی میں بیرون ملک قتل، اغوا، دہشتگردوں کی مالی معاونت، میڈیا میں جھوٹی خبریں پھیلانا، اور سیاسی مداخلت کے سنگین الزامات اب صرف مفروضے نہیں رہے۔
واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ اور دی گارڈین جیسے معتبر ادارے اب تصدیق کر رہے ہیں کہ بھارت “را” کے ذریعے نہ صرف مخالفین کو قتل کروا رہا ہے بلکہ ریاستی دہشتگردی کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنا چکا ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں نکھل گپتا نامی بھارتی شہری پر فرد جرم عائد کی، جو امریکی سرزمین پر سکھ رہنما کی ٹارگٹ کلنگ کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اسی طرح، کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کا قتل، آسٹریلیا میں بھارتی جاسوسوں کی گرفتاری، اور قطر میں بھارتی نیوی کے اہلکاروں کی حراست پاکستان میں کلبھوشن یادو کی گرفتاری یہ سب بھارتی عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
امریکہ، کینیڈا، قطر اور آسٹریلیا جیسے ممالک خود اس ایجنسی کی سرگرمیوں سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ہردیپ سنگھ نجر کا قتل، آسٹریلیا میں حساس معلومات کی چوری، قطر میں بھارتی نیوی افسران کی گرفتاری، اور کینیڈا میں را نیٹ ورک کی نشاندہی عالمی سطح پر بھارت کی غیر قانونی مہمات کو بے نقاب کر چکی ہیں۔ ان تمام واقعات سے ایک بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت نہ صرف اپنے اندرونی مخالفین کو نشانہ بناتا ہے بلکہ اپنی سرحدوں سے باہر بھی دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح اور دو ٹوک رہا ہے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر بارہا یہ بات اٹھائی کہ بھارت کی ریاستی پشت پناہی سے چلنے والی دہشتگردی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔ پاکستان نے کبھی دہشتگردی کی حمایت نہیں کی، بلکہ خود دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ہونے کے باوجود اس کے خلاف بھرپور جنگ لڑی ہے۔ پاکستان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ ہر قسم کی ریاستی اور غیر ریاستی دہشتگردی کی مذمت کی جانی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی ملک سے ہو۔ بھارت کی را جیسی ایجنسیوں کو عالمی قانون کے تحت جوابدہ ہونا چاہیے۔
پاکستان کے پاس بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن میں سب سے نمایاں مثال کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے۔ یہ ایک حاضر سروس بھارتی نیوی کمانڈر تھا جو بلوچستان میں تخریب کاری، بدامنی، انتشار اور پروپیگنڈا پھیلانے، اور فتنتہ الہند (بی ایل اے، بی ایل ایف، براس وغیرہ) کے ساتھ فتنتہ الخوارج (ٹی ٹی پی) کو منظم کرنے میں ملوث تھا۔ اس نے اپنی ویڈیو بیان میں اعتراف کیا کہ وہ را کے کہنے پر پاکستان میں کارروائیاں کر رہا تھا۔ حالیہ دنوں میں ایک اور بھارتی جاسوس اشوک چترویدی کی بلوچستان سے گرفتاری نے ایک مرتبہ پھر بھارت کے ان خفیہ اور دہشتگرد نیٹ ورکس کو بے نقاب کر دیا ہے جو پاکستان میں بدامنی اور ریاست مخالف بیانیہ پھیلانے میں سرگرم ہیں۔
پاکستان نے 9/11 کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دی، 110 ارب ڈالر براہ راست جبکہ 1000 ارب ڈالر سے زائد کا بالواسطہ نقصان برداشت کیا۔ اس کے باوجود بھارت پاکستان پر دہشتگردوں کی پناہ گاہ ہونے کا الزام لگاتا ہے، جبکہ حقائق مکمل طور پر اس کے برعکس ہیں۔
بلوچستان ایک عرصے سے بھارتی پراکسی وار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ “فتنۃ الہند” اور “فتنۃ الخوارج” جیسے عناصر دراصل را کی معاونت سے چلنے والے وہ گروہ ہیں جو پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت، نظریاتی انتشار اور فرقہ وارانہ جنگ کو فروغ دے رہے ہیں۔ بی ایل اے، بی ایل ایف، براس اور ٹی ٹی پی جیسے گروہ بھارتی ایجنسیوں سے مالی اور عسکری مدد لے کر پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ “لاپتہ افراد” کے نام پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم، دراصل انہی خفیہ ایجنسیوں کا پروپیگنڈا ہے جس میں بی وائی سی، بعض این جی اوز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ان کے سابقہ کمانڈرز جیسے گلزار امام شنمبے، سرفراز بنگلزئی، اور نصراللہ عرف مولوی منصور نے دورانِ تفتیش یہ انکشاف کیا کہ ان کے مالی اور عسکری وسائل کا براہِ راست ذریعہ بھارت ہے۔ ان کے بیانات واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان میں بدامنی، لاپتہ افراد کی آڑ میں ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا منصوبہ، اور فرقہ وارانہ و لسانی تعصبات کو ہوا دینا سب ایک بڑی سازش کا حصہ ہے جسے “فتنۂ الہند” کہنا بجا ہوگا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی 29 اپریل کی پریس کانفرنس میں بھارت کے ساتھ ان خوارجی گروہوں کے گٹھ جوڑ کے ناقابل تردید ثبوت دنیا کے سامنے رکھے گئے، جس میں بھارتی آرمی کے میجر کی آڈیو بھی شامل تھی جو تسلیم کر رہا تھا کہ بلوچستان سے لاہور تک بھارتی نیٹ ورک متحرک ہے۔
بھارت کی اشتعال انگیزی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ 22 اپریل کو بھارت نے ایک جھوٹے فالز فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچایا اور اس کا الزام پاکستان پر ڈال دیا۔ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے آزاد اور شفاف تحقیقات کی پیشکش کی، مگر بھارت نے تعاون کرنے کے بجائے 7 مئی کی رات پاکستان کی شہری آبادی کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ پاکستان نے اپنے دفاع میں فوری کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے تین رافیل طیارے، ایک مگ اور ایک ایس یو 30 کو مار گرایا۔ اس کے بعد بھارت نے اسرائیل سے حاصل کردہ 80 ڈرون پاکستان پر بھیجے، جنہیں پاکستانی فضائی دفاع نے نہایت مہارت سے راستے ہی میں تباہ کر دیا۔ لیکن بھارتی جارحیت کا سلسلہ نہیں رکا، اور 10 مئی کی رات بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے اہم ایئربیسز کو میزائلوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان نے نہ صرف ان میزائل حملوں کو انٹرسیپٹ کیا بلکہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے “بنیان مرصوص آپریشن” کا آغاز کیا، جس کے تحت بھارت کے 12 سے زائد ایئربیسز اور ایس-400 ایئر ڈیفنس سسٹم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔
یہ تمام واقعات اس حقیقت کی غمازی کرتے ہیں کہ بھارت نے خطے میں جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی، اور پاکستان نے انتہائی ذمہ داری، صبر اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف دفاع کیا۔ پاکستان نے عالمی برادری کو مسلسل آگاہ کیا کہ اگر بھارت کو روکا نہ گیا تو یہ پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لے جا سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوام عالم کی طرف سے مسلسل خاموشی اختیار کی گئی۔ پاکستان نے ہر سطح پر بھارت کی ریاستی دہشتگردی، پراکسی نیٹ ورکس اور جھوٹے بیانیے کے خلاف شواہد دیے، مگر عالمی طاقتیں تماشائی بنی رہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کب تک دنیا بھارت کے ان جرائم پر خاموشی اختیار کیے رکھے گی؟ کب تک را جیسی ایجنسیوں کو مہذب دنیا میں دہشتگرد کارروائیوں کی اجازت دی جائے گی؟ کب تک “فتنۃ الہند” اور فتنتہ الخوارج
جیسے منصوبے انسانیت کو نشانہ بناتے رہیں گے؟ کب عالمی ضمیر بیدار ہوگا؟
کب تک امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، قطر اور دیگر ممالک بھارتی ایجنسی “را” کی سرگرمیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہیں گے؟ اگر آج ان سوالات کا جواب نہ دیا گیا، تو کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے، اب اقوام عالم کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ امن کے ساتھ کھڑی ہوں گی یا فتنہ پرست ریاستوں کی پشت پناہی کرتی رہیں گی۔