بلوچ یکجہتی کمیٹی اور سردار اختر جان مینگل کی خاموشی اعتراف جرم ہے

تحریر۔طارق خان ترین

جب بھارت میں پہلگام فالز فلیگ آپریشن ہوا تو بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے چند ہی منٹوں کے اندر الزام پاکستان پر عائد کیا۔ اور پاکستان کے خلاف کہیں یکطرفہ اقدامات اٹھائے گئے۔ جس میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی سمیت پاکستان کے ساتھ منسلکہ بارڈر چیک پوائنٹ کی بندش، پاکستانیوں کو بھارت سے نکالنے کی پابندی، پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی ملک بدر وغیرہ شامل ہے۔ بحرحال پاکستان نے بھارت کو ہمیشہ کی طرح موثر ترین جواب دیتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی روکنا ایک جنگ تصور ہوگی، تمام بھارتی ماسوائے سکھ یاتریوں کے ملک بدر کر دیا گیا، ہوائی سپیس بند جبکہ انڈین ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو 30 افراد تک محدود کرنے کے جوابی اقدامات شامل ہے۔ 7 مئی کی رات بھارت نے پالستان پر میزائل داغے جس میں شہری ابادی کو نشانہ بنا، اور بچوں، عورتوں سمیتسینکڑوں افراد شہید ہوئے۔ جوابی کارروائی میں پاکستان بھارت کے 6 طیاروں کو مار گرایا جس میں 3 رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ اس کے بعد بھارت کی جانب اسرائیلی ساختہ ڈرونز پالستان میں بھیجے گئے جنہیں عوام اور پاکستانی فورسز سے زمین بوس کر دیے۔ 10 مئی کی رات ایک مرتبہ پھر بھارت کی جانب سے پاکستانی ائیربیسز کو نشانہ بنایا گیا جنہیں پالستان کے دافعی سسٹم نے بروقت انٹرسیپٹ کرتے ہوئے میزائل مار گرائے۔ تو اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے متعدد ائیربیسز کو نشانہ بناتے ہوئے بھارتی ائیر ڈیفنس سسٹم ایس 400 کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد ائیربیسز تباہ کر دیں۔ ان تمام واقعات نے پاکستان مخالف پرسیپشن کو تبدیل کر کے رکھ دیا، اور اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی اب پاکستان کی تعریف کیے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر کوئی چپ ہے تو وہ بھارت ہے، اور تعجب یہ کہ بلوچستان میں موجود قوم پرست سیاستدان اور انسانی حقوق کی نام لیوا تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی بھی خاموش ہے۔

بلوچستان میں فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہند (بی ایل اے، بی ایل ایف، بی آر اے) وغیرہ کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہے، جس میں معثوم شہریوں سمیت ہمارے سکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کرتے ہے۔ ہمارے صوبے میں محنت کشوں اور مزدوروں کو اپنے بچوں کی کفالت کیلئے مزدوری پر نہیں چھوڑا جاتا۔ مسافر کہ جن کیلئے اللہ تعالٰی نے اپنی عبادات تک میں رعایت دے رکھی ہے انہیں بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد قتل کردیئے جاتے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ ان قوم پرست جماعتوں کے سیاستدانوں کی جانب سے اور نا ہی انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ان دہشتگرد تنظیموں اور ان کے دہشتگرد کارروائیوں کی مذمت تک نہیں کی جاتی، بس چپ کا ساد لیکر انہیں درپردہ حمایت دیا کرتے ہے۔ یہ خاموشی نہیں بلکہ اعتراف جرم ہے۔

بلوچستان کا صوبہ قدرتی معدنیات سے مالامال صوبہ ہے۔ جب بھی بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو ان جیسی تنظیمیں بلوچستان کی ترقی میں سیاست کے نام پر تو کبھی انسانی حقوق کے لبادے تحت رکاوٹے حائل کرتے ہیں۔ یہ حقیقتا نہیں چاہتے کہ بلوچستان ترقی کر جائے، یہاں کے عوام کی زندگی ایک اچھے معیار کی بن جائے۔ بلوچ قتل کر دیے جاتے ہے، پشتون دہشتگردی کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ خضدار میں بچوں کے بس پر فتنہ الہند کی جانب خودکش حملہ کر دیا جاتا ہے، مگر اس پر سب کے سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بلوچ قوم ایک غیرتمند قوم ہے جنہوں نے آزادی سے لیکر آج تک کی اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے، یہاں کے پشتون اپنے روایات کے آمین ہوتے ہیں جو اپنے مٹی کے دفاع کیلئے ہر دم ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ دونوں اقوام کو ملک سے متنفر تو کیا جاتا ہے، جوڑا نہیں جاتا؟ کیونکہ اگر تو یہ قومیں ترقی کر جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں نہیں کر سکے گی۔ انہیں مفلوج یہاں کے سرداروں، نوابوں نے رکھا ہے۔ نا رکھا ہوتا تو آج ان وڈیروں کی سیاست دفن ہوچکی ہوتی۔ رہی سہی کسر فتنتہ الخوارج اور فتنتہ الہند نے پوری کر رکھی ہے۔ بلوچستان میں جدھر کہیں بھی معاشی فوائد کے مراکز بن رہے ہو ان دہشتگردوں کی جانب سے انہی معاشی فوائد کے مراکز کو نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ سی پیک، ریکوڈک، بلوچستان کے طول و عرض میں معدنی ذخائر کو حدف بنانا اپنی مثال آپ ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے تخریبی کاروائیاں ہوتی ہے مگر مجال ہے کہ اس کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی یا پھر قوم پرست سردار اختر جان مینگل احتجاج کی کال دے۔

سردار اختر جان مینگل اور بی وائی سی ایک ہی سکے کے دو رخ ہے، جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوتا ہے، سکیورٹی فورسز انتہائی مہارت سے بی ایل اے کے خوارجین کو موت کے گھاٹ اتارتے ہے۔ جن کی لاشیں سول ہسپتال کوئٹہ لائی جاتی ہیں ان لاشوں کو لینے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ماہرنگ غفار اور انکے کارندے اتے ہیں۔ جب ریاست پاکستان نے بارہا کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک بھارتی پراکسی ہے جو فتنتہ الہند کیلئے انسانی حقوق کے لبادے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے تو اس پر بہت سے قوم پرست سیاستدانوں سمیت دانشوروں نے تنقید کی۔ ماہرنگ غفار اور انکے کارندوں کو شہر میں توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو اس سکے کے دوسرے رخ یعنی اختر جان مینگل نے اپنا کام شروع کرتے ہوئے گرفتاری کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ اس احتجاج میں ایک سوشل میڈیا کے چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں ایک سوال کے جواب میں دانستہ طور پر کہا کہ میں فتنہ الہند کو صبح شام دعائیں دیتے ہیں۔ فیصلہ عوام کرے کہ ریاست ٹھیک کہتی رہی یا پھر یہ سردار جو اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے بی وائی سی کیلئے احتجاج کرنے کے دوران خود ہی اعتراف کررہا ہے کہ میں تو بی ایل اے کیلئے دعائیں کرتا ہوں۔

جو شخص فتنہ الہند کیلئے دعاگو ہو وہ آج بھی قومی اسمبلی کا ممبر کیو ہے؟ باوجود کہ انہوں استعفا بھی دے رکھا ہو۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کرتے ہوئے ہمارے شہری آبادیوں کو میزائیل سے نشانہ بنایا، جس میں 50 کے قریب افراد بچوں سمیت شہید ہوئے، انکی جانب احتجاج، دھرنا تو درکنار کوئی مذمت تک اگر کی گئی ہو؟ بی وائی سی نے لاپتہ افراد پر سستی شہرت حاصل کی، جس پر بھی ریاست پاکستان واضح کہا کہ یہ لاپتہ افراد درحقیقت فتنتہ الہند میں شامل ہوتے ہیں اور الزام پاکستان کے ریاستی اداروں پر لگایا جاتا ہے۔ دہشتگردی کے واقعات میں وہی لاپتہ افراد کیونکر نکل آتے ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ بلوچستان کی ترقی کیلئے کوئی ایک احتجاج جو بی وائی سی یا پھر اختر جان مینگل اور انکی پارٹی کی جانب سے کی گئی ہو؟ کیا بی وائی سی اور اختر جان مینگل واقعی میں بلوچ کے غمخوار ہے؟ اگر ہےتو جو ایرانی بلوچ فتنتہ الہند کے ساتھ مل کر دہشت گردی کرتے ہیں انکے لئے احتجاج، اور جو اس صوبے کے بلوچ ہے انکے شہادت پر خاموشی اختیار کرتے ہیں؟

بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحال مستقبل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ منافقانہ رویے ہیں جو قوم پرستی، سیاست، اور انسانی حقوق کے نام پر چھپے ہوئے ہیں۔ جب تک دہشتگردی کے خلاف ایک واضح اور غیر مبہم مؤقف اختیار نہیں کیا جاتا، اور جب تک ریاست دشمن عناصر کو سیاسی پردہ فراہم کرنے والوں کا محاسبہ نہیں ہوتا، تب تک نہ معصوم جانیں محفوظ ہیں اور نہ ہی بلوچستان کا مستقبل۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچ عوام اور ریاست مل کر ان نقاب پوش کرداروں کو مسترد کریں، جو خاموشی کی زبان میں دشمن کا بیانیہ بولتے ہیں۔ یہ خاموشی نہیں، بلکہ شریکِ جرم ہونا ہے—اور اس جرم کے خلاف آواز اٹھانا ہی بلوچستان کے لیے حقیقی وفاداری کا ثبوت ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *