تحریر۔نظام الدین
بابر بدایونی سے میری ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ کراچی یونیورسٹی میں طالب علم تھے ، پھر وہ دسمبر 1986 کو امریکہ چلے گئے اؤر واپس اس وقت آئے جب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی 1992 کراچی آپریشن کے دوران امریکہ جانے کے 13سال بعد پاکستان تشریف لائے اؤر آج جب ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی وزیر تعلیم ہیں تو وہ ان کے کوآرڈینیٹر ہیں،،
کچھ دن پہلے وہ مجھے فون کرکے فرمائے لگے کہ حالیہ دنوں اسلام آباد میں پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے صوبوں کی ضرورت کے موضوع پر ایک گول میز نشست کا انعقاد کیا گیا تھا آپ اس نشست میں ہونے والی گفتگو اؤر نئے صوبوں سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟؟ اؤر اِس کے ساتھ انہو نے نئے صوبوں کے حوالے سے ایم کیو ایم کے سابقہ رہنماں حیدر عباس رضوی کی ویڈیو اؤر مختلف اخبارات کے حوالہ جات بھی بھیجے ، شاید وہ مجھے بتانا یہ چارے تھے کہ صوبوں سے متعلق جو آج کل بازگشت سنائی دے رہی ہے وہ سب کچھ ڈا کٹر خالد مقبول صدیقی صاحب کی محنت یا سیاست کا نتیجہ ہے ،
بابر بدایونی صاحب کے لیے عرض ہے
پاکستان کے آئین ؤ قوانین اور لسانی گروہ کی موجودگی میں کوئی پاکستانی سیاست دان کسی بھی منتخب ایوانِ میں نیا صوبہ بنانے کی قرارداد جمع کرا کے یا شوشل میڈیا پر لفاظی بیانات سے یہ باور کرانا چاہتا ہو کہ فلاں صوبے کی تشکیل کو دنیا کا کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا تو ایسا وہ سیاست دان عوام کو دانستہ طور پر غلط راستہ دیکھا رہا ہے یا پھر وہ اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر اپنے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے مفاداتی بانسری بجا رہا ہے،، کیونکہ،
آئین پاکستان کی شق دو سو انتالیس کی ذیلی شق چار میں نئے صوبے بنانے یا کسی صوبے کی حدود کا از سر نو تشکیل دینے کے بارے میں رہنمائی کرتی ہے۔ اس شق میں دیے گئے طریقے کار کے مطابق جب متعلقہ صوبے کی اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد کا دو تہائی اکثریت اگر صوبے کی حدود میں ردو بدل کے حق میں ووٹ ڈالے تو پھر اس تجویز کو وفاقی پارلیمان ، سینیٹ سے منظور کرا کر اس آئینی ترمیمی بل کو منظور کرانے صدرِ مملکت کو پیش کرسکتی ہے ، آئین میں ترمیم کا اختیار وفاقی پارلیمان کو حاصل تو ہے مگر کسی صوبے کی حدود کے بارے میں ردوبدل کا اختیار حاصل نہیں ہے ، اور پھر 18 ویں ترمیم کی موجودگی میں تو بلکل بھی نہیں ،،
دراصل حقیقت یہ ہے کہ جب بھی ملک میں انتخابات کے دوران سیاسی محاذ گرم ہوتا ہے تو سیاسی حریفوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف کسی نہ کسی کارڈ کے استعمال کی بازگشت شروع ہو جاتی ہے کوئی مذہبی کارڈ کوئی پنجاب یا سندھ کارڈ یا پھر پختون اور مہاجر کارڈ ، حتی کہ صوبائی کارڈ کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ کارڈ تک کے نام کو استعمال کیا جاتا ہے،،
اسی طرح کی سیاسی محاز آرائی کے نتیجے میں پاکستان کا صوبہ بنگال بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا تھا جس کو آج کی بعض سیاسی جماعتیں پاکستان میں صوبائی خودمختاری نہ دینے کا نتیجہ قرار دیتی ہیں ،،
آگر ہم ستر کی دہائی کے کچھ اہم سیاسی مسائل کا ازسرنو مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا اس دور کی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ساتھ ملا کر ایک کھیل کھیلا تھا،،،
جنرل یحیٰی خان نے ایوب خان سے اقتدارِ سنبھالنے کے بعد 30 مارچ 1970 کو لیگل فریم ورک آرڈر “ایل ایف او” کے تحت مغربی پاکستان میں ون یونٹ ختم کرکے متحدہ پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے مشرقی پاکستان کو مزید صوبائی خودمختاری دینے کا اعلان کیا تب” مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے اس صوبائی خودمختاری کی مخالف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ واحد ایوان پر مشتمل قانون ساز ادارے میں تمام معاملات 60 فیصد ارکان کی حمایت کی بنیاد پر طے کیے جائیں ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خدشہ تھا کہ بنگال کی سیاسی قیادت ملک کے تمام اداروں پر قبضہ کرلے گی، بعد ازاں اسی کشمش میں “ایل آف آؤ” طرز کے قوانین کے تحت پاکستان میں انتخابات کروائے گئے ،۔ جس میں آرٹیکل سترہ کے تحت کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت جو پاکستان کے کسی بھی حصے کی علیحدگی یا آزادی کے خیال کا پروپیگنڈا کرتی ہو یا اس کی حمایت کرتی ہو،، موجودہ دور کے پولیٹیکل پارٹیز
آرڈیننس XIX آف 2002 قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ،،،
آرٹیکل 63A : کے تحت کوئی بھی شخص وفاقی یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے لیے نااہل قرار دیاگیا تھا ، آگر وہ نظریہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف کسی بھی طرح کی کوئی رائے کا پرچار کرے گا،، ان دفعات کا بنیادی طور پر مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو علیحدگی پسندی، آزادی یا پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرنے والے کسی نظریے کو فروغ دیتی ہے اسے انتخابات میں حصہ لینے یا عوامی عہدہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی ،،، ۔
اب مطالعہ کرتے ہیں اس دور کے پاکستانی عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے چھ” نکاتی پروگرام کا وفاقی آئین میں مضبوط صوبائی حکومتوں کا قیام
براہ راست منتخب پارلیمنٹ۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم، جس میں مؤخر الذکر کو زیادہ خود مختاری حاصل ہو،
مشرقی پاکستان کے لیے ایک علیحدہ صوبائی آئین۔
مشرقی پاکستان کے لیے فیڈرل ریزرو سسٹم اور علیحدہ اسٹیٹ بینک کا قیام۔
مشرقی پاکستان کے لیے ایک علیحدہ ملیشیا۔
اس طرح کے چھ نکات عوامی لیگ کی انتخابی مہم کا حصہ تھے ،
اب مطالعہ کریں اسی دور کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو پاکستان کی کن سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی
مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی ،، جمعیت علمائے اسلام
مولانا مفتی محمود کی قیادت میں،، ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی جس کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان کر رہے تھے
جمعیت علمائے پاکستان
مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں،، عبد القیوم خان کی قیادت میں مسلم لیگ
ان جماعتوں کے قائدین نے ایک طرف یحیٰی خان کے اعلان پر بنگالیوں کو زیادہ خودمختاری دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو دوسری طرف عوامی لیگ کے چھ نکات کی موجودگی میں اس کی حمایت کی، اس صورت حال میں عوامی لیگ نے بنگال میں الیکشن جیت لیا ، اب سوچنے کی بات ہے کہ آخر ان قوانین کی موجودگی میں ان سیاسی جماعتوں نے کس ایجنڈے کے تحت چھ نکات کی حمایت کی؟
جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس 1971 کے بحران کو یہ سیاسی جماعتیں اور میڈیا سقوط ڈھاکہ کہتے اور لکھتے ہیں ،جبک عوامی لیگ کے مکٹی باہنی اس واقعے کو پاکستان سے لبریشن کہتےہیں،، دراصل کسی بھی ملک میں قانونی پر امن جدو جہد کو فریڈم کا نام دیا جاتا ہے
اگر جہدوجہد مسلح ہو تو اسے لبریشن کا نام دیا جاتا ہے
متحدہ پاکستان میں بنگالی صوبائی خودمختاری کی جہدوجہد کو فریڈم کہتے تھے جبک اس دور کے سیاست دانوں نے وہ کھیل کھیلا جس کی وجہ سے بنگالیوں کی جہدوجہد کو لبریشن کہا گیا ، اوراس لبریشن کا سامنا فوج کو کرنا پڑا ،
جبک کسی بھی ملک کے قوانین انسانوں کے لکھے ہوتے ہیں اس میں غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں اس کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اس کی ترمیم پر آواز اٹھانے والوں کو غدار نہ سمجھا جائے
کیونکہ قوانین اجتماعی اصولوں پر مبنی ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس کو حکومت کی طرف سے کسی سماج کو منظم کرنے اور اس کا نظم و نسق چلانے کے لیے نافذ کیا جاتا ہے ، اس پر اس سماج کے اجتماعی رویوں کا دارو مدار ہوتا ہے ، اگر کچھ قوانین عوام کی فلاح وبہبود کے لیے خطرناک یا حقوق کی پامالی یا پھر سماج کے لیے مضر ثابت ہو رہے ہوں اور عوام اس سے مطمئن نہیں ہوں تو اس میں ترمیم لے آنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر عوامی حقوق ؤ فرائض کے حوالے سے قوانین میں کچھ خلاف ورزی ہو تو عدلیہ کی زمہ داری ہے کہ وہ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے اپنا قانونی کردار ادا کرئے ، جو آئیں نے اسے تفویض کیا ہؤا ہے ، اسی طرح آرٹیکل 48 کی زیلی دفعہ چھ ریفرنڈم کے انعقاد سے متعلق ہے جب ملک کے کسی بھی حصے پر عوام میں کسی بھی وجہ یا صوبائی مسئلے پر تحفظات ہوں تو عوامی ریفرنڈم کروایا جاسکتا ہے ، اس میں صدر اپنی صواب دید کے مطابق وزیراعظم کے مشورے کی روشنی میں عوامی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے
ہاں، یا، ناں میں ووٹنگ کرائی جاسکتی ہے،
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 140 (الف) کے تحت مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات ریاست کے تیسرے اہم ترین ستون یعنی مقامی حکومتوں تک منتقلی کیے جاسکتے ہیں ، اگر تمام صوبوں کے اختیارات شفاف نیت کے ساتھ شہری حکومت کو منتقل کردیں تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تمام شہری حکومتوں کے پاس اپنے شہر کی صحت و صفائی، تعلیمی نظام، ٹرانسپورٹ، پولیس، شہر کا ماسٹر پلان بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کا اختیار ہو اور وسائل بھی موجود ہوں تو علاقے کے منتخب کردہ لوگ اپنے ہی شہر کے لیے کام کریں گے؟ اور علاقے کے مسائل علاقے میں ہی حل ہو جائیں گے۔ کم ازکم اپنے مسائل کے لیے وزیراعلیٰ یا پارلیمان ہاؤس کے باہر دھرنوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
لیکن یہ تمام باتیں ہمارے ملک میں یوں ممکن نہیں کہ اگر تمام اختیارات نچلی سطح تک منقل کردیے جائیں تو ایوان میں بیٹھے ارکان اگلی الیکشن کیمپین کے وقت سڑکیں، اسکول، کالج اور اسپتال بنوانے کے وعدے کر کے عوام سے ووٹ کیسے مانگیں گے؟ وہ کیونکر عوام کو یہ سچ بتائیں کہ ان کا کام فقط پارلیمان میں بیٹھ کر قانون سازی کرنا ہے،،
یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات دفتر سنبھالنے والی نئی صوبائی حکومتیں یا تو پہلے سے موجودہ بلدیاتی حکومتوں کو تحلیل کر دیتی ہیں یا پھر صوبائی اسمبلی میں بل پاس کرکے بلدیاتی حکومتوں کو قدرے حد تک بے اختیار کر دیتی ہیں۔۔ آج اگر آئین میں جس طرح صدر، مجلس شوریٰ، وزیراعظم اور ان کی کابینہ، گورنر، وزیر اعلیٰ اور ان کی پارلیمان کی طرح ناظم اعلیٰ اور یوسی چیئرمین تک کو ملنے والے اختیارات، ان کے ماتحت آنے والے محکموں کے نام آئین میں شیڈول لسٹ کے اضافے کے ساتھ، آئین میں کھل کر بیان کردیے جائیں تو پھر کوئی صوبائی حکومت جب دل چاہا، بلدیاتی حکومتوں کے ماتحت آنے والے محکمے نہ ہی اپنی تحویل میں لے سکے گی اور نہ ہی ان کے اختیارات کم کرنے کے لیے آئے دن اپنی مرضی کے آرڈیننس نکال سکے گی۔۔
لیکن مجھے لگتا ہے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکہ کے المیے سے کوئی سبق حاصل کیا نہ ہی اپنی روش بدلنے کو تیار ہیں ،،،