تحریر۔نظام الدین
عموماً امریکہ کا کوئی بھی نو منتخب صدر سب سے پہلے کینیڈا ، برطانیہ ، یا پھر میکسیکو کا دورا کرتاہے ، مگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہونے کے بعد 13 مئی کو سب سے پہلے سرکاری دورے پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنجے جہاں ان کا استقبال سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کیا ، رسمی ملاقاتوں اور تجارت کے نام پر مختلف معاہدوں پر دستخط کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز کی عدم موجودگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ؟؟
کئی سیاسی فیصلے بھی تنقید کی وجہ بننے جس میں غزا میں شہید ہونے والوں سے متعلق پالیسی، پاک بھارت جنگ کے دوران ان کا موقف اور حج پر عائد غیر معمولی سختیوں پر بہت کچھ لکھا جاسکتا تھا ،،، مگر میں یہاں سعودی عرب کے شہر ریاض میں سعودی اور امریکی تجارتی معاہدے کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارت کے بجائے سیاسی تقریر کے بیانات لکھ رہا ہوں جس میں وہ فرما رہے تھے کہ آگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے اور دوسرا یہ کہ مجھے امید ہے جلد سعودی عرب “ابراہیمی” معاہدے میں شامل ہو جائے گا ؟؟ درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو معاہدے وہاں کیے وہ گریٹر اسرائیل کی تکمیل کا منصوبہ ہیں ، جسے کچھ عرصے پہلے روسی انٹیلیجنس نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے سسٹم میں داخل ہو کر حاصل کیے جو اسلام کو مٹانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح عرب حکمرانوں کی مدد سے شدت پسند اسلام کا خاتمہ کرنا ہے اور اس کی جگہ ایک سیکولر اسلام متعارف کروانا ہے اس منصوبے کو “ابراہیمی “مذاہب کا اتحاد” اور “عالمی امن” کے نعرے کے تحت نافذ کیا جائے گا۔ اسلامی ورثے کی تمام کتب کو نذرِ آتش کیا جائے گا، اور ان کی جگہ نئی کتابیں لائی جائیں گی۔ اسلامی متون کو سیکولر نقطۂ نظر سے دوبارہ تفسیر کیا جائے گا جس کے لیے سیکولر مبلغین تیار کیے جارہے ہیں اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے تمام اسلامی مضامین نکالنے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے ، قرآن کی تعلیم اور عربی زبان کی تدریس پر پابندی ہوگی۔ اسلامی تعلیمی ادارے بند کیے جائیں گے۔ اذان پر لاوڈ اسپیکر کے ذریعے پابندی ہوگی۔ مساجد کی تعداد کم کی جائے گی۔ سیکولر خطیب مقرر کیے جارہے ہیں ، جنہیں تیار شدہ تقاریر دی جائیں گی۔ عبرانی اور انگریزی کو جدید علوم کی سرکاری زبان بنایا جائے گا، جیسا کہ شمالی افریقہ میں کیا جا چکا ہے۔ علمائے کرام، مبلغین، اور مشائخ کا تعاقب کیا جائے گا، انہیں قتل یا قید کیا جائے گا۔ انہیں مجبور کیا جائے گا کہ وہ حکومتی پالیسیوں کی حمایت کریں۔ اگر وہ انکار کریں تو انہیں دہشتگردی، شدت پسندی، اور سخت گیر سوچ کے تحت سزا دی جائے گی۔
اسلامی تقویم، مذہبی تعطیلات، اور اسلامی لباس جیسے حجاب پر پابندی لگائی جائے گی۔ فحاشی، الحاد، اور ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جائے گا۔ عرب خاندان، قبائل، اور معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کیا جائے گا تاکہ 90 فیصد آبادی بدعنوان اور بے دین ہو جائے۔
عرب ممالک میں ہزاروں مساجد کو ترقی، شہری نظم، اور جدید منصوبوں کے نام پر گرا دیا جائے گا۔ ان کی جگہ ایک لاکھ کلیسا اور معبد تعمیر کیے جائیں گے، خاص طور پر ہوائی اڈوں، کمپنیوں، یونیورسٹیوں، اور عوامی مقامات میں۔
منصوبے کے تحت خلیجی ممالک میں 20 نئے شہر بنائے جائیں گے جن میں ہزاروں معابد، کلیسا، بارز ، نائٹ کلب، اور عریانی کے ساحل ہوں گے۔ ان شہروں میں 100 ملین غیر مسلم بسائے جائیں گے، جیسا کہ دبئی، سیناء، اور نیوم میں کیا جا چکا ہے۔
اب تک 15 ملین غیر عرب اور غیر مسلم عرب ممالک میں داخل کیے جا چکے ہیں، جن میں صرف امارات میں 7 ملین ہیں (آبادی کا 70٪)۔ مستقبل میں 100 ملین مزید غیر عرب لائے جائیں گے، جن میں سے 50 ملین سعودی عرب میں بسائے جائیں گے۔
5 ملین یہودیوں کو عرب خطے میں بسایا جائے گا، انہیں شہریت، سہولیات، اور مخصوص شہر دیے جائیں گے۔ وہ اہم فوجی اور سول اداروں میں تعینات کیے جائیں گے تاکہ مکمل اختیار حاصل کریں۔
آئندہ 10 سالوں میں خلیجی حکومتوں کو گرا کر فوجی بغاوتیں کی جائیں گی۔ 80 فیصد آبادی غیر عرب و غیر مسلم بنا دی جائے گی تاکہ عرب اور مسلمان صرف 20 فیصد رہ جائیں۔ 20 سالوں میں یمن اور سعودی عرب کو فتح کر کے پورے جزیرہ العرب پر قبضہ کیا جائے گا۔
2048 تک “گریٹر اسرائیل” کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو خلیج سے لے کر بحیرہ روم تک پھیلا ہوگا۔ یہ اسرائیل کے 100 سالہ قیام کی سالگرہ ہوگی۔ عرب دنیا پر مکمل تسلط ہوگا، ان کی دولت، بندرگاہیں، جزیرے اور پالیسیز قابو میں ہوں گی، اور 100 فوجی اڈے قائم کیے جائیں گے ، غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی منصوبے کی عملی شکل ہے۔ جبکہ پاک بھارت جنگ بھی اس منصوبے کا حصہ تھی جس میں سب اہم کردار اسرائیل کے وہ ڈرون طیارے تھے جس کے خفیہ کیمروں کے زریعے سے پاکستان کی اہم ترین تنصیبات اور فوجی چھاؤنیوں کی تصاویر بنانے کی ناکام کوشش کی گئی تھیں ، کیونکہ اس منصوبے کے راستے میں سب سے بڑی دیوار پاکستان کو سمجھا جاتا ہے ،
یہ رپورٹ ایک معتبر خفیہ زرائع سے حاصل ہوئی ہے جو طویل دستاویزات کا خلاصہ ہے ،،،