اسلام آباد میں مارگلہ ایونیو راؤنڈ آباؤٹ پر دو گولڈن ہاتھوں والی ایک نئی یادگار کی نصب کی گئی تھی جس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خوب تنقید کی گئی کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے۔
بشارت راجہ نے لکھا کہ یہ ہاتھ کس کے ہیں جنہوں نے بالز کو تھام رکھا ہے یہ اسلام آباد میں نصب کیا گیا یہ کیا پیغام ہے؟
رضوان غلزئی نے سوال کیا کہ یہ کس کا ویژن ہے سر؟
صحافی نادیہ مرزا نے تصویر پوسٹ کرتے ہوئے کہاکہ آج آفس آتے ہوئے یہ شاہکار دیکھا پر کچھ سمجھ نا آیا نا ہی آنکھوں کو بھایا۔ یہ ہے کیا بھائی؟
ثاقب بشیر نے لکھا کہ ایک دن کی کھڑکی توڑ پزیرائی کے بعد سی ڈی اے نے ماڈل پر کپڑا ڈال دیا تاکہ عوامی پزیرائی کو کچھ کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ہی شاید اس ماڈل کا مشورہ دینے والی کی تلاش بھی جاری ہے۔
صارفین کی جانب سے ہونے والی تنقید کے بعد مارگلہ روڈ پر نصب کیے گئے نئے آرٹ ماڈل کو پہلے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا اور اب کہا جا رہا ہے کہ یہ فن پارہ واپس اتارا جا رہا ہے۔
مہوش قمس خان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بننے کے بعد سی ڈی اے نے مجسمہ ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ٹیم موقع پر موجود ہے اور مجسمے کو ہٹایا جا رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سی ڈی اے اتنی نااہل ہے کہ بغیر منظوری کے ماڈلز نصب کر دیے جاتے ہیں، اور ادارے کو خبر تک نہیں ہوتی؟
خرم اقبال نے طنزاً لکھا کہ پہلے ہاتھوں میں بالز پکڑائیں، پھر کپڑا ڈالا اور اب اُکھاڑ ہی دیا۔ انہوں نے فلم شعلے کا مشہور ڈائیلاگ بولتے ہوئے کہا کہ یہ ہاتھ ہم کو دے دے ٹھاکر۔