حسد

تحریر۔نظام الدین

“‏وَمِن شَرِِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد”
اور جب حاسد کا حسد مجھے نقصان پہنچانے آئے تو اے آللہ مجھے اپنی امان میں رکھنا “

حسد کائنات کا وہ پہلا گناہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا آدم کو دیکھ کر ،،،
حسد ایک قدیم فطری مگر مہک جذبہ ہے جس نے انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی سنگین نتائج پیدا کیے ، دینی تعلیمات ، نفسیاتی تحقیق اور معاشرتی مشاہدات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حسد نہ صرف فرد واحد کی تباہی کا سبب بنتا ہے بلکہ اجتماعی بگاڈ کی جڑ بھی ہے ،
انسان میں حسد کی مختلف شکلیں ہیں جو معاشرے کی صورت حال کے مطابق بچپن سے ہی لاشعوری طور پر جڑ پکڑ لیتی ہیں ،
حسد انسانی دماغ کے میکانزم سسٹم سے جڑا ہوتا ہے جہاں اسے اپنی بقاء کا خطرہ لاحق ہو تو دوسروں سے مقابلے کے لیے تیار ہو جاتا ہے،
قرآن اور بائبل کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا حسد کی وجہ سے ،،
حسد ہی کی وجہ تھی جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں پھینک دیا تھا ،
حسد کا ایک پہلو ناانصافیوں سے بھی جڑا ہے ؟؟؟
جس کی مثال میں خود ہوں ، میرے ایک بیٹے کی زندگی سے جڑیں دو بیٹیاں ہیں ایک مکمل انپڑھ اور دوسری سائیکالوجسٹ میں ماسٹر ہے۔ مجھے اس سائیکالوجسٹ بیٹی سے حسد ہے اس حسد کی وجہ میرے بیٹے کی ناانصافی ہے ؟؟
جبکہ مجھے اس سائیکالوجسٹ بیٹی پر فخر ہے مگر اس انپڑھ بیٹی کی فکر ہے، میری اس کیفیت کو سائیکالوجسٹ بیٹی اچھی طرح سمجھ سکتی ہے؟
کیونکہ سائیکالوجسٹ کا تعلق ہی نفسیاتی امراض کے ساتھ ہوتا ہے، نفسیات سے مراد انسانی حرکات سکنات ؤ سوچ سے ہوتا ہے,
سائیکالوجسٹ ، سانکیٹرسٹ اور نیورولوجسٹ ان تینوں کا تعلق دماغی امراض کی الگ الگ شاخوں سے ہوتا ہے اور طریقہ علاج بھی مختلف ہوتا ہے ، مگر ان تینوں معالج کا واسطہ ایک ہی قسم “حسد” کے مریضوں سے پڑھتا ہے ، حسد ایک خودی کے بحران کا اظہار ہوتا ہے جو دماغ کے مختلف نیورولوجیکل ردعمل کو ظاہر کرتا ہے،
امگڈالا دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو خوف، غصہ ، اور دیگر منفی جذبات کو پروسیس کرتا ہےاور حسد کا تجربہ بھی کرتا رہتا ہے آگر کسی وجہ سے انسان کی اندرونی دنیا میں تناؤ اور کشیدگی بڑھ جاتی ہے، اور یہ جذبات اس کے رویے میں تبدیلی پیدا کررہے ہوں تو امگڈالا کی ایکٹیویشن اس بات کا اشارہ ہے کہ حسد محض ایک ذہنی اور جذباتی کیفیت نہیں رہا بلکہ دماغی سطح سے نکل کر جسم میں داخل ہوچکا ہے ،
پری فرنٹل کارٹیکس انسانی دماغ کا وہ حصہ ہے جو فیصلہ سازی، خود پر قابو، اور ذہنی سکون سے متعلق ہوتا ہے اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیت اور خود پر قابو پانے کی طاقت متاثر ہوتی ہے۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ اپنے جذبات پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا ہے، اور کانجیلیٹ کارٹیکس اس درد کا پروسیس کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسد نہ صرف ایک جذباتی بلکہ ایک جسمانی تکلیف بھی ہے۔ اس میں ہمارے دماغ کے وہ حصے شامل ہیں جو غم یا پریشانی کے احساسات سے جڑے ہوتے ہیں
ڈوپامین ایک نیوروٹرانسمیٹر ہے جو خوشی اور تسکین کے احساسات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی حسد محسوس کرتا ہے تو ڈوپامین کا نظام اس کے برعکس کام کرتا ہے۔ جب اسے کسی دوسرے کی کامیابی محسوس ہوتی ہے، تو دماغ ان کا موازنہ کرتا ہے اور وہ کم تر محسوس کراتا ہے۔ اس وقت دماغ یہ سوچتا ہے کہ ہم کسی قسم کی “گہرائی” سے محروم ہیں، اور یہ احساس خوشی کے بجائے مایوسی اور غصے کی طرف لے جاتا ہے۔
حسد کے اثرات دماغ تک ہی محدود نہیں رہتے؛ اس کے جسم پر بھی مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب ہم حسد کے جذبات میں مبتلا ہوتے ہیں، تو یہ ہمارے جسم کے مختلف نظاموں پر اثر ڈالتا ہے:
جب ہم حسد کرتے ہیں، تو ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا سبب امگڈالا کا ایکٹیویٹ ہونا ہے،
جو ہمیں ردعمل میں مبتلا کرتا ہے، یعنی وہ حالت جہاں جسمانی طور پر ہماری توانائی اور تیاری بڑھ جاتی ہے تاکہ ہم کسی خطرے کا مقابلہ کر سکیں۔ اگر چہ یہ ردعمل قدرتی ہے، لیکن جب یہ مستقل طور پر ہوتا ہے، تو یہ دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
حسد کی حالت میں ہمارے جسم میں کورٹیسول جیسے اسٹرس ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے۔ کورٹیسول ہماری انرجی کو بڑھاتی ہے، لیکن اس کا زیادہ اخراج طویل مدت تک ذہنی دباؤ، بے سکونی اور اضطراب کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم زیادہ تھک جاتے ہیں، ذہنی سکون سے محروم ہو جاتے ہیں، اور ہماری زندگی میں ایک مسلسل بے چینی کا احساس بڑھتا ہے۔
نیوروسائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حسد ایک جذباتی اور نیورولوجیکل ضرورت بن گیا ہے ،
مختصراً یہ کہ حسد ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کے اندر نفرت اور دل کی صفائی کی کمی پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے، لیکن اس کو قابو پانا ضروری ہے تاکہ یہ انسان کی روحانی اور ذہنی سکون کو متاثر نہ کرے۔ حسد سے بچنا انسان کی ذہنی اور روحانی صحت کے لئے ضروری ہے، اور اسلام نے اس سے بچنے کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ اس کے نقصانات سے بھی خبردار کیا ہے
اب ہم نے حسد، اس کی سائنس کو سمجھ لیا ہے تو بات کرتے ہیں کہ نفسیات اور اسلام کی روشنی میں ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں. اس کے لیے نفسیات اور اسلام کی روشنی میں کچھ حل بھی پیش کیے ہیں جو اس سے بچنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں.
نفسیاتی طور پر، حسد اکثر خودی کے بحران کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو کم تر یا ناکام محسوس کرتا ہے، تو وہ دوسروں کی کامیابیوں پر حسد کرنے لگتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنی خود اعتمادی پر کام کریں اور اپنے اندر کی طاقت کو پہچانیں۔ اپنی کامیابیوں کو سراہیں اور اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھیں۔ خود اعتمادی کے بڑھنے سے حسد کے جذبات کم ہوتے ہیں۔
حسد کا بنیادی سبب دوسروں سے موازنہ کرنا ہے۔ جب ہم دوسروں کی کامیابیاں یا دولت کے ساتھ اپنی زندگی کا موازنہ کرتے ہیں، تو ہمیں اس میں کمی محسوس ہوتی ہے، جس سے حسد جنم لیتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہمیں اپنے سفر پر توجہ دینی چاہیے نفسیات میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شکرگزاری انسان کے ذہنی سکون میں اضافہ کرتی ہے اور اس کے منفی جذبات کو کم کرتی ہے۔ جب ہم اپنے ارد گرد کی چیزوں کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں حسد اور منفی جذبات کا گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شکرگزاری کی عادت سے ہم اپنی زندگی کی خوبصورتی کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور دوسروں کی کامیابیوں کے بارے میں منفی سوچ کو کم کر پاتے ہیں۔
جب ہم دوسروں کی کامیابیوں یا خوشیوں کو دل سے تسلیم کرتے ہیں، تو ہم ان کے ساتھ خوشی محسوس کرتے ہیں اور خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے اندر حسد کے جذبات کو کم کرتا ہے اور ہمیں ایک مثبت زاویہ فراہم کرتا ہے۔ جو شخص حسد پر قابو نہیں رکھتا تو وہ آئندہ چند دنوں میں دل کے امراض ، شوگر ، بلند فشار خون ، ذہنی تناؤ اور ٹینشن وغیرہ جیسی بیماریوں کے لیے تیار رہے ،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *