ایک تھا شہید

تحریر۔نظام الدین

وہ کبھی سیاچن کی برفیلی چوٹیوں پر، کبھی وزیرستان کے دہشگردوں کے خلاف محاذ پر، اور کبھی لائن آف کنٹرول پر دشمن کو شکست دینے کے بعد کا بول کر وہ ہر مرتبہ اسے تسلی بھرے پیغام بھیجا کرتا تھا ،،،
مگر یہ کیا آج اس کے سامنے پھولوں سے سجا تابوت بہت عزت ؤ احترام کے ساتھ آخری رسومات کے لئے لایا گیا تو وہ بھیگی بھیگی پلکوں میں آنسوں روکھے خاموش کھڑی اپنے منگیتر کے تابوت کو غور سے دیکھ رہی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ چیخے چلاۓ شور مچاۓ؟
یا جشن منانے والوں کے ساتھ رقص کرنا شروع کردے ؟
آخر ملک تو اس کا بھی تھا اور اس کا محبوب محاذ پر جنگ جیت کر شہید ہوا تھا ،،
آس کے سامنے شہید کے ماضی کی خوبصورت پرچھائیاں ابھر آئین اور وہ خیالوں کی دنیا میں کھو کر جنگ پر جاتے اپنے محبوب سے کی گئی گفتگو اور وعدوں کو یاد کرنے لگی ،،
جب اس نے کہا تھا کہ ہم اور تم سیاست کی ان پیچیدگیوں میں الجھے بغیر کیوں نہ اپنے دل کی آواز کو تسلیم کرتے ہوۓ اپنی محبت کا ایک الگ رنگ تخلیق کر لیں ۔ اور اپنی الگ دنیا بسا کر کہیں ہجرت کر جائیں جہاں یہ نفرت، فساد، جنگ ، ہار جیت اور سرحدوں کی بحث ہی نہ ہو ؟
مگر وہ تو سچائی کا امین اور ملک کی محبت سے لبریز ایک فوجی جوان تھا ،، اسے میری بات کہاں سمجھ میں آنے والی تھی ،،، اسے تو میرے اندر بھی اپنا ملک ہی نظر آرہا تھا،،
وہ کہنے لگا اس ملک کا قومی ترانہ تمہارے ہونٹوں پر رقص کرتی ہوئی مسکراہٹ کی مانند ہے اور اس کے پرچم کا سبز ؤ سفید رنگ تمہاری آنکھوں کی طرح اتنا خوبصورت اور جاذب ہے کہ میں پوری طرح اس میں کھو جانا چاہتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ہونٹوں پر رقص کرتی ہوئی یہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں پرچم کا رنگ میری موت تک قائم رہے،،


میں نے کہا یہ تمہارا ملک ہے یہ ہمیشہ اسی طرح رہے گا اسے کوئی تم سے چھین نہیں سکتا، ہوسکتا ہے اس کی کیفیت ہمیشہ ایک جیسی نہ رہے مگر اس کیفیت پر ہمیشہ تمہارے فیصلے ہی اثر انداز ہونگے ، اور جو ملک کا درد اور اس کا خوبصورت رنگ تم نے میرے اندر سجا رکھا ہے وہ ہمیشہ قائم دائم رہیں گے ،، اور اگر ایک دن میں ہی نہ رہی تو؟
وہ مسکرا دیا اور کہا اس ملک پر جان نچھاور کرنے والے مجھ سے زیادہ جانشین مسلسل آتے رہیں گے ،،، میں نے کہا یقینا تمہارا ملک اسی طرح ایک ملک رہے گا ۔اس کی ابادی مختلف خیال رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہوسکتی ہے ،، مگر ۔تم اس ملک کے وفاداروں کی فہرست میں شمار کئے جاؤ گے مگر تمہاری اس وفاداری کی قیمت عورتیں ادا کریں گی وہ ماں ہو، بہن ہو یا منگیتر ؟؟ کیونکہ جنگ کا محاذ کوئی پھولوں کی سیج یا کھیل نہیں ،، جانے کب تک وہ اپنے محبوب کے خیالوں میں گم رہتی کہ توپوں اور سلامی کی آواز نے اسے خیالی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں کھڑا کردیا اسے لگا جیسے وہ اسے آواز دے رہا ہو کہ دیکھو میں نے کہا تھا نا کہ” یہ میرا ملک ہے اس کا قومی ترانہ تمہارے ہونٹوں پر رقص کرتی ہوئی مسکراہٹ کی مانند ہے اور اس کے پرچم کا سفید ہرا رنگ تمہاری آنکھوں کی طرح اتنا خوبصورت اور جاذب ہے کہ میں پوری طرح اس میں کھو جانا چاہتا دیکھو تمہارے ہونٹوں پر رقص کرتی ہوئی مسکراہٹ اور آنکھوں میں پرچم کا رنگ میری موت تک قائم ہے “
آج وہ جیت گیا تھا ۔اس کا جسد خاکی ملک کے سبز ؤ سفید پرچم میں لپٹا ہوا تھا اور وہ لوگ جو کل تکّ اس کے محبوب پر تنقید اور مختلف الزامات لگایا کرتے تھے ۔ پتہ نہیں وہ لوگوں کے جوشیلے نعروں کی آواز میں کہاں چھپ گئے تھے ،؟؟؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *