web counter روسی تیل سے بچت یا امریکی ناراضی؟ بھارت کا نازک سفارتی توازن – 61News

روسی تیل سے بچت یا امریکی ناراضی؟ بھارت کا نازک سفارتی توازن

بھارت ایک پیچیدہ سفارتی موڑ پر کھڑا ہے، امریکی سینیٹ میں پیش کردہ ایک بل کے تحت، جو روسی تیل درآمد کرنے والے ممالک پر 500 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی تجویز دیتا ہے، بھارت کی توانائی کے تحفظ کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں، بھارت اس وقت اپنی تقریباً نصف خام تیل کی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے، جو اسے مہنگی عالمی منڈی سے بچانے کا ذریعہ بنا ہے۔

2024-25  کے دوران بھارت نے سستے روسی تیل کے ذریعے تقریباً 7.9 ارب ڈالر کی بچت کی۔ مگر امریکا کی نظر میں یہ معاشی حکمت عملی، جغرافیائی سیاسی مسئلہ بن چکی ہے۔ سینیٹر لنزے گراہم کی طرف سے پیش کردہ سینکشننگ رشیا ایکٹ 2025 ان ممالک کو سزا دینا چاہتا ہے جو امریکی پابندیوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔

تاہم بھارت کی ’تذویراتی خودمختاری‘ کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ قومی مفاد پر مبنی آزادانہ پالیسی سازی ہے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے اس تبصرے کو ’جب وقت آئے گا، ہم فیصلہ کریں گے‘ کچھ مبصرین حکمت عملی پر مبنی ابہام قرار دیتے ہیں۔

بھارت روسی تیل اکثر جی7 کی مقرر کردہ 60 ڈالر فی بیرل حد سے کم قیمت پر خریدتا ہے، لیکن وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس حد کا پابند نہیں ہے۔ اگر امریکا یہ بل منظور کرتا ہے، تو بھارت پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا کہ وہ یوکرین کی حمایت میں واضح پوزیشن لے یا سخت معاشی نتائج کا سامنا کرے۔

صرف تیل ہی نہیں — تجارت بھی خطرے میں

یہ ممکنہ 500 فیصد ٹیرف صرف توانائی کا معاملہ نہیں بلکہ بھارت کی امریکا کو 80–90 ارب ڈالر سالانہ برآمدات کے لیے ایک خطرہ ہے، جن میں دوا سازی، آٹو پارٹس، ٹیکسٹائل اور انجینئرنگ مصنوعات شامل ہیں۔ یہ شعبے بالواسطہ طور پر تیل سے منسلک ہیں، اور ٹیرف لگنے کی صورت میں انہیں شدید نقصان ہو سکتا ہے۔

یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے: کیا تزویراتی شراکت داری معاشی دباؤ کے ساتھ چل سکتی ہے؟

بھارت کی ممکنہ حکمت عملی

ممکنہ امریکی پابندیوں اور روسی تیل کی درآمدات پر بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے پیش نظر، بھارت کو اپنی توانائی پالیسی میں جامع تیاری کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو متعدد محاذوں پر حکمت عملی اپنانا ہوگی، جن میں سب سے اہم تیل کے ذرائع کی تنوع کاری ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک اور افریقہ جیسے متبادل سپلائرز سے درآمدات بڑھانا۔

اس کے ساتھ ساتھ، اسٹریٹجک پیٹرولیم ذخائر میں اضافے پر بھی توجہ دینا ناگزیر ہے تاکہ کسی فوری عالمی بحران کی صورت میں ملک کے پاس وافر ذخائر موجود ہوں۔

مزید پڑھیں: بھارت میں آئی فون بنائے تو 25 فیصد ٹیرف عائد ہوگا، امریکی صدر ٹرمپ نے خبردار کردیا

بھارت کو چاہیے کہ وہ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیو ٹی او کے تحت قانونی چارہ جوئی کے راستے کو بھی اختیار کرے، جیسا کہ مشاورت یا جوابی محصولات جیسے اقدامات، تاکہ یکطرفہ پابندیوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، توانائی کے شعبے میں پائیداری کے لیے صاف اور قابلِ تجدید ذرائع کی طرف تیزی سے منتقلی کو بھی حکومتی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں تیل پر انحصار کم ہو اور معیشت بیرونی جھٹکوں سے محفوظ رہ سکے۔

روس سے تعلقات اور امریکا سے قربت؛ ایک نازک توازن

روس بھارت کا پرانا تزویراتی شراکت دار ہے، خاص طور پر دفاع، توانائی، اور خلائی تعاون کے شعبوں میں۔ اگر بھارت امریکی دباؤ میں آ کر روسی تیل خریدنا کم کرتا ہے تو روس ناراض ہو سکتا ہے، جس سے مستقبل کے معاہدے مہنگے اور شرائط سخت ہو سکتی ہیں۔

دوسری طرف، اگر بھارت امریکا کے خلاف جاتا ہے تو بھارت-امریکا شراکت داری — جو دفاع، کوانٹ کواڈ، سیمی کنڈکٹر اور ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے — سست ہو سکتی ہے۔

تذویراتی خودمختاری کا اصل مفہوم

500 فیصد ٹیرف کی دھمکی بھارت کے لیے معاشی خودمختاری، سفارتی لچک اور عالمی حیثیت کا امتحان ہے۔ بھارت کو امریکا یا روس کے درمیان ایک کا انتخاب نہیں کرنا، بلکہ اپنی راہ خود طے کرنی ہے۔ اسے توازن، حکمت، اور خود انحصاری پر مبنی حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

اگر امریکا بھارت کو واقعی اسٹریٹجک شراکت دار سمجھتا ہے تو اسے دباؤ کے بجائے لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ورنہ بھارت دیگر آپشنز، حتیٰ کہ چین سے بھی قربت اختیار کر سکتا ہے تاکہ دباؤ کا متبادل تلاش کیا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *