پنجاب کی ای-ٹرانسفر پالیسی پر شدید تنقید، مرد اساتذہ کی آسامیاں خطرے میں.پروفیسر قیصر سجاد

پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (HED) کی نئی ای-ٹرانسفر پالیسی 2024 پر صوبے بھر کے سرکاری کالجوں میں مرد اساتذہ کی منظور شدہ آسامیوں میں غیر معمولی کمی کے باعث شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ پالیسی، جس کا مقصد اساتذہ کی تعیناتی کو ڈیجیٹل بنانا اور شفافیت کو فروغ دینا تھا،غیر متوقع طور پر مرد اساتذہ کے لیے مخصوص پوسٹوں کے تیزی سے خاتمے کا باعث بن رہی ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق،سابقہ مردوں کے لیے مخصوص گریجویٹ کالجوں میں 4 سالہ بی ایس پروگرام متعارف ہونے کے بعد انہیں “کوایجوکیشن ادارے” قرار دے دیا گیا،جس کے نتیجے میں تقریباً 735 مردوں کی منظور شدہ آسامیاں خواتین اساتذہ کو دے دی گئیں۔ اس وقت صوبے میں مرد اساتذہ کا تناسب صرف 40 فیصد رہ گیا ہے،جبکہ خواتین اساتذہ کی شرح 60 فیصد ہو چکی ہے۔یہ صورتحال مرد اساتذہ کی برادری میں شدید اضطراب کا باعث بنی ہے، جو اس پالیسی کو “ادارہ جاتی ناانصافی” قرار دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی روایتی پالیسی کے مطابق کالجوں کا کیڈر دو علیحدہ زمرہ جات پر مشتمل تھا: مرد جنرل کیڈر اور خواتین جنرل کیڈر، اور ہر ایک کا تقرر اپنے مخصوص صنفی کالج میں ہوتا تھا۔21 فروری 2020 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، مردوں کے لیے 11,194 جبکہ خواتین کے لیے 12,012 آسامیاں مخصوص کی گئی تھیں۔ تاہم، نئی ای-ٹرانسفر پالیسی میں دفعہ 6 (XIII) کی وضاحت کے مطابق کوایجوکیشن اداروں میں مرد و خواتین دونوں درخواست دے سکتے ہیں، جس کے تحت صرف مرد کالجوں کو “کوایجوکیشن” قرار دے کر خواتین کو وہاں تعینات کیا جا رہا ہے، جبکہ خواتین کالج بدستور “خواتین کالج” ہی رہیں۔
اس پالیسی پر اعتراض کرتے ہوئے پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (PPLA) کی صدر فائزہ رانا نے بتایا کہ اس وقت 735 مردوں کی آسامیاں خواتین اساتذہ کے زیرِ قبضہ ہیں، جن کی تقسیم یوں ہے: لاہور میں 204، راولپنڈی 120، فیصل آباد 99، ملتان 75، گجرات 52، سرگودھا 37، ساہیوال 36، گوجرانوالہ 22، اور ڈی جی خان 7۔
فائزہ رعنا نے مزید کہا کہ خواتین کو اگر کوایجوکیشن اداروں میں تعینات کرنا ہے تو ان کے لیے علیحدہ سیٹیں مخصوص کی جائیں، نہ کہ مردوں کی منظور شدہ آسامیاں پر قبضہ کیا جائے۔واضح رہے کہ 16 فروری 2021 کو ایچ ای ڈی کے ایک نوٹیفکیشن کے تحت تمام “ڈگری کالجوں” کو “ایسوسی ایٹ اور گریجویٹ کالج” قرار دیا گیا، اور دو سالہ بی اے پروگرام کو ختم کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کے بعد، 272 مرد گریجویٹ کالجوں میں سے 83 کو کوایجوکیشن قرار دیا گیا، جبکہ 173 خواتین کالجوں کو جوں کا توں برقرار رکھا گیا۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں 189 مرد کالج، 431 خواتین کالج، اور 83 کوایجوکیشن کالج موجود ہیں۔ لیکن کوایجوکیشن کا درجہ صرف مرد کالجوں کو دیا گیا ہے، جس سے مردوں کے لیے منظور شدہ پوسٹوں کی تعداد آدھی ہو کر صرف 5,549 رہ گئی ہے،جبکہ خواتین کو دونوں اقسام کے کالجوں میں تعیناتی کی اجازت مل چکی ہے۔29 ستمبر 2024 کے ایک اور حکم نامہ (No. SO(EF-II) e-Transfer/2024/September/97) کے تحت 80 خواتین لیکچررز کو ان اداروں میں تعینات کیا گیا جو مردوں کے کیڈر کے لیے مخصوص تھے، جس پر ماہرین قانون نے آئین کے آرٹیکل 25 (برابری کا حق) اور آرٹیکل 27 (صنفی تحفظ) کی ممکنہ خلاف ورزی کی نشاندہی کی ہے۔راقم الحروف لودھراں کے انگریزی (اسسٹنٹ پروفیسر قیصر سجاد) نے اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ میں رِٹ پٹیشن دائر کی، جس پر عدالت نے ایچ ای ڈی کو شکایات کے ازالے کا حکم دیا۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ خصوصی سیکرٹری نے کیڈر کی بحالی کی بجائے صرف چار سطحی فارمولے اور ترقیوں پر توجہ مرکوز رکھی۔اور اب محکمہ کے خلاف چیف سیکریٹری پنجاب کو اپیل کی گئی ہے۔پی پی ایل اے کے سرگرم اراکین کے مطابق، اس پالیسی کا ازسرِنو جائزہ ناگزیر ہے۔ ان کی تجاویز میں شامل ہے کہ اصل اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے، خواتین اساتذہ کی مرد کیڈر میں مزید تعیناتی کو روکا جائے، اصل کیڈر اسٹرکچر کو بحال کیا جائے، اور 2020 کے نوٹیفکیشن کے مطابق آسامیوں کے توازن کو یقینی بنایا جائے۔ذرائع کے مطابق، ای-ٹرانسفر پالیسی کی یہ تبدیلی نہ صرف مرد اساتذہ کے لیے مواقع محدود کر رہی ہے بلکہ کیڈر بیسڈ بھرتیوں کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *