سیاسی عدم استحکام ،عوامی مسائل یا اقتدار کی جنگ

از قلم: حسنین سرور جکھڑ

پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک سیاسی عدم استحکام ایک مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے ہر دور میں اقتدار کی کشمکش، پالیسیوں میں عدم تسلسل اور غیر یقینی صورتحال نے ملک کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے آج بھی یہی خبریں ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر چھائی رہتی ہیں اور عوام اسی سوال میں الجھی ہوئی ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو ملک کو ایک مستحکم سیاسی اور معاشی نظام دینے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں
سیاسی عدم استحکام کا مطلب کسی بھی نظام میں مستقل مزاجی اور پائیداری کا فقدان ہے جب کسی ملک میں حکومتیں بار بار بدلتی ہیں پالیسیاں طویل مدتی نہ ہوں اور عوام اور حکمرانوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہو تو وہ ملک ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا عدم استحکام کا یہ مسئلہ صرف سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات معیشت، سماجی ڈھانچے اور ملکی وقار پر بھی پڑتے ہیں کسی بھی ملک کی کامیابی کے لیے ایک مستحکم سیاسی نظام، عوام میں سیاسی شعور اور مخلص قیادت کا ہونا ضروری ہے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں 1949 میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں آنے والے انقلاب نے پورے سیاسی نظام کو ایک نئی جہت دی اور آج یہی چین دنیا کی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ اقتدار کی کشمکش رہی ہے 1958 سے لے کر آج تک حکمرانوں کی توجہ عوامی فلاح و بہبود سے زیادہ اقتدار کے حصول اور اس کو برقرار رکھنے پر مرکوز رہی ہے مارشل لاء، سیاسی چال بازیاں غیر جمہوری فیصلے اور عوامی رائے کو نظرانداز کرنا اس عدم استحکام کے نمایاں عوامل میں شامل ہیں حکمرانوں کی ترجیحات میں قومی مفاد کم اور ذاتی مفاد زیادہ نمایاں رہا ہے جس کی وجہ سے ہر چند سال بعد سیاسی نظام میں ہلچل پیدا ہو جاتی ہے
عوامی شعور کی کمی بھی پاکستان میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ ہے ایک باشعور قوم ہی بہتر قیادت کا انتخاب کر سکتی ہے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے بدقسمتی سے پاکستان میں عوامی شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ غیر دانشمندانہ فیصلے کرتے ہیں اور ایسے رہنماؤں کو اقتدار سونپ دیتے ہیں جو قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں 9 مئی 2023 کے واقعات اسی عوامی لاشعوری کی ایک واضح مثال ہیں جہاں جذبات میں بہک کر لوگوں نے ملکی تنصیبات کو نقصان پہنچایا جب عوام میں سیاسی فہم و فراست کی کمی ہو تو وہ محض نعروں اور جذباتی تقاریر کی بنیاد پر اپنے فیصلے کرتے ہیں جو بعد میں ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں
تعلیمی نظام بھی اس مسئلے کا ایک اہم پہلو ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو صرف نصابی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں لیکن انہیں جمہوریت شہری حقوق سیاسی نظام اور ذمہ داریوں کے بارے میں شعور نہیں دیا جاتا یہ کمی انہیں عملی زندگی میں سیاسی فیصلے کرنے کے قابل نہیں بناتی اگر تعلیم کے ذریعے نوجوانوں میں سیاسی بیداری پیدا کی جائے تو مستقبل میں ایک زیادہ ذمہ دار اور باشعور قیادت ابھر سکتی ہے جو ملک کو درست سمت میں لے جا سکے
میڈیا جو کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے پاکستان میں زیادہ تر منقسم اور جانبدار نظر آتا ہے سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر کوئی اپنی رائے کو حتمی سچ سمجھتا ہے اور بہت سے لوگ بغیر تحقیق کیے جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں اس سے عوام میں مزید انتشار اور بداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور سیاسی استحکام مزید کمزور ہو جاتا ہے اگر میڈیا اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور عوام کو حقیقت پر مبنی معلومات فراہم کرے تو سیاسی شعور کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے
معاشی عدم استحکام بھی اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے مہنگائی اور بے روزگاری کی بلند شرح عوام کو مزید مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے پاکستان میں مہنگائی 30 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ تعلیمی سہولیات کی کمی کی وجہ سے دو کروڑ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں بے روزگاری کی شرح گزشتہ 10 سالوں میں (5.1 فیصد) سے بڑھ کر (7 فیصد) ہو چکی ہے جو بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں زیادہ ہے زرعی شعبہ جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے زبوں حالی کا شکار ہے اور کسان احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ جب معیشت کمزور ہو تو عوام میں بے چینی بڑھتی ہے جو بالآخر سیاسی عدم استحکام کو مزید ہوا دیتی ہے
اس عدم استحکام سے نکلنے کے لیے سب سے اہم کام نظام میں اصلاحات اور عوامی شعور کی بیداری ہے جب تک نظام میں بہتری نہیں آئے گی کوئی بھی حکمران ملک کو درست راستے پر نہیں ڈال سکتا تعلیمی نصاب میں سیاسی شعور کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کو پہلے ہی سے جمہوریت اور سیاست کی اہمیت کا ادراک ہو تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا تاکہ ادارہ جاتی تصادم کی صورتحال ختم ہو سکے میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو حقیقت پر مبنی معلومات فراہم کرنی ہوں گی تاکہ لوگ جذباتی نعروں کے بجائے عقلی بنیادوں پر فیصلے کر سکیں
جب تک عوام میں سیاسی شعور پیدا نہیں ہوگا اور نظام میں بنیادی اصلاحات نہیں کی جائیں گی پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا اگر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اقتدار کی جنگ کو پس پشت ڈال کر قومی مفادات کو ترجیح دینی ہوگی بصورتِ دیگر ہر چند سال بعد یہی عدم استحکام دہرایا جاتا رہے گا اور ترقی کا خواب ایک خواب ہی رہے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

//madurird.com/4/8931211