تحریر۔اوصاف شیخ
پاکستان کے وفاقی اور صوبائی اداروں کی حالت زار اور قومی دولت کا بے دریغ غیر ضروری استعمال اور غیر ضروری اخراجات جو بلا شبہ سینکڑوں ارب ہوں گے کے بارے ویسے تو ساری قوم جانتی ہے لیکن اس کا مزید ثبوت وزیر اعلی’ بلوچستان کی ایک تقریر سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے گزشتہ روز بلوچستان کے ایک چھوٹے شہر میں ایک تقریب میں کی ۔ وزیر اعلی’ بلوچستان سرفراز بگٹی نے انکشاف کیا کہ بلوچستان حکومت سالانہ تیس کروڑ روپے مستحقین میں زکواۃ تقسیم کرتی ہے جبکہ یہ تیس کروڑ تقسیم کرنے کے لیئے بلوچستان حکومت کو 80 گاڑیوں سمیت ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔۔۔۔۔
گو یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا قوم کے بیشتر افراد کو شعور نہ ہو لیکن ایک صوبہ کے وزیر اعلی’ کے منہ سے یہ بات ایک انکشاف سے کم نہیں کیونکہ بات صرف بلوچستان کے محکمہ زکواۃ کی ہی نہیں یہ تو ایک مثال ہے جس سے وطن عزیز کے بہت سے محکموں میں ہونے والے غیر ضروری اخراجات پر نظر ڈالنے کا موقع ملتا ہے ۔ بالخصوص ایسے ادارے جن کا تعلق عوامی خدمت اور ترقیاتی کاموں سے ہے
یہ بات تو بلوچستان کی ہوئی جس کے ایک چھوٹے سے محکمہ کے بارے خود اسی صوبہ کے وزیر اعلی’ نے انکشاف کیا ہے ۔ صوبہ بلوچستان آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے شاید اس کی آبادی پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے بھی کم یا اس کے برابر ہے
پاکستان کے دیگر صوبوں پنجاب جس کی آبادی پاکستان کی نصف آبادی سے زیادہ ہے ، سندھ ، خیبر پختون خواہ ، گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کا حساب لگائیں صرف ایک محکمہ زکواۃ ہی کو لے لیں تو اربوں روپے ایسے ہوں گے جن کا کوئی مصرف نہ ہوگا نہ ہی عوام کو ان کا فائدہ ہو رہا ہوگا ۔۔۔
بلوچستان کے وزیر اعلی’ نے تو اشارہ دے دیا کہ وہ اس پر کام کریں گے اور نظام کو تبدیل کریں گے دیگر صوبوں کو بھی چاہئے کہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سب سے پہلے تو محکمہ زکواۃ میں صفائی اور شفافیت کا عمل شروع کریں ، محکمہ زکواۃ میں صرف ہر حلقے کے چند افراد کو زکواۃ کی رقم گزارہ الاؤنس دینے کا ہی کام نہیں بلکہ نادار مریضوں کے علاج ، دوا کے اخراجات ، نادار لڑکیوں کے لیئے جہیز فنڈ ، نادار بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور دیگر اخراجات بھی شامل ہیں اور عوام کی کثیر تعداد کو اس کا علم بھی نہیں کہ محکمہ زکواۃ سے زکواۃ کی رقم کے علاؤہ کس کس مد میں امداد مل سکتی ہے ، میں اور بہت سے لوگ گواہ ہیں کہ محکمہ کے ملازمین لڑکیوں کے جہیز کے اور نادار اور غرباء کے علاج اور غریب بچوں کی تعلیم کےجعلی کاغذات بنا کر کیسے محکمہ سے رقم نکلواتے ہیں اور خود ہڑپ کر جاتے ہیں
وزیر اعلی’ بلوچستان نے جو بلوچستان کے محکمہ زکواۃ کے صرف زکواۃ تقسیم کے عمل کے لیئے ادارہ کے اخراجات بتائے ہیں صرف اسی حوالے سے ہی سوچا جائے تو بلوچستان کے علاؤہ دیگر صوبوں میں جو کہ سب بلوچستان سے آبادی کے لحاظ سے بڑے ہیں اور جن کی آبادی ساڑھے تئیس کروڑ بنتی ہے میں صرف اس ایک محکمہ کے اخراجات کیا ہوں گے بلا شبہ یہ اخراجات اربوں میں ہوں گے یہاں ہم کرپشن کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے دیگر محکموں کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ بلا شبہ پاکستان بھر کے سرکاری محکموں بالخصوص جن کا تعلق براہ راست ملک و قوم کی عملی خدمت اور ترقی سے ہے کہ ان محکموں کے غیر ضروری اخراجات یقینا” سینکڑوں ارب تک جا پہنچتے ہوں گے کرپشن اس کے علاؤہ ہے اور مہنگائی پیدا کرنے کے عوامل میں اہم حیثیت بھی ہے اس کی ۔۔۔ ان سینکڑوں ارب کو ڈالز میں تبدیل کریں تو اندازہ لگا سکتے ہیں کتنے ڈالرز بنتے ہیں جبکہ ہم آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر جو کہ دو سو پچھتر ارب روپے بنتے ہیں کی قسط لینے کے لیئے ان کے آگے لیٹے ہوتے ہیں اور ان کی ہر ناجائز بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں جس میں بجلی اور پیٹرول کے نرخ بڑھانے کی شرائط ہوتی ہیں اور اسی سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی سے کم آمدنی والوں کی زندگی دشوار تر ہوتی ہے جن کی تعداد پاکستان کی کل آبادی میں بہت زیادہ ہے اسی مہنگائی اور معاشرتی تفاوت سے اسٹریٹ جرائم ، خود کشیوں اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوتا ہے
اسی طرح بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کا فنڈ پچاس ارب روپے سے زیادہ ہے اس حوالے سے بھی متعدد مرتبہ اس کی شفافیت پر بھی سوال اٹھ چکے ہیں اور اب بھی اعتراضات ہوتے ہیں
اب ضرورت اس امر کی ہے حکومت پاکستان ، صوبائی حکومتیں اور ادارے حکومت بلوچستان اور وزیر اعلی’ بلوچستان کی تقلید کرتے ہوئے پہلا کام یہ کریں کہ تمام اداروں کے غیر ضروری اخراجات ختم کریں ، اور غیر ضروری پروگرام بند کر دیں ، محکمہ زکواۃ ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ایسے دیگر اداروں اور منصوبوں کی از سر نو تشکیل کرتے ہوئے ان میں غیر ضروری اخراجات اور کرپشن سے پاک رکھنے کے لیئے اقدامات کریں ۔ ایسے ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر تمام اداروں میں تطہیر کا عمل شروع کر کے اور غیر ضروری اخراجات ختم کر کے ملک و قوم کے سینکڑوں ارب روپے سالانہ بچائے جا سکتے ہیں جن سے نچلے طبقہ کی آمدنی میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ممکن ہے لیکن اس کے لیئے حکومت اور اداروں کا ملک و قوم سے مخلص ہونا اولین شرط ہے اس کے بغیر یہ سب نا ممکن ہے
ہوزیر اعلی’ بلوچستان کی تقلید کی ضرورت
