وسیب،محرومی سے خودمختار تک

از قلم: فہیم اعجاز مہر

آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 160 کی رو سے صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پانچ سال بعد قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دینے کا پابند ہے.18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایک اہم شق شامل کی گئی جس کے تحت “کوئی بھی صوبہ 2009 کے NFC ایوارڈ کے تحت حاصل ہونے والے حصے سے کم نہیں پائے گا.
مالی سال 2025ـ26 کے بعد گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ کی تشکیل پاکستان کی وفاقی وحدت کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔ اس مرحلے پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ صرف ایک معاشی سوال نہیں بلکہ ایک آئینی، سیاسی اور اخلاقی تقاضا ہے۔ خاص طور پر سرائیکی وسیب کے لیے یہ مرحلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، جہاں دہائیوں سے مسلسل محرومی، عدم نمائندگی اور ترقیاتی عدم توازن دیکھنے کو ملتا رہا ہے.
موجودہ مالیاتی فارمولے میں پنجاب کو ملنے والا حصہ 51.74 فیصد ہے، مگر افسوس کہ اس میں سے سرائیکی خطے کو بمشکل 10 تا 12 فیصد حصہ ملتا ہے، حالانکہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے اس خطے کا تناسب کہیں زیادہ ہے۔ اس عدم توازن نے تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور روزگار کے شعبوں کو شدید متاثر کیا ہے.
وقت کا تقاضا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم محض آبادی کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ پسماندگی، علاقائی تفاوت، اور ترقیاتی ضروریات کو بھی معیار بنایا جائے. یہ پہلو سرائیکی وسیب کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے.
جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی بحالی اور اس کو مکمل اختیارات کے ساتھ فعال بنانا ضروری ہے تاکہ فیصلے مقامی سطح پر کیے جائیں.اس کے ساتھ ہی تمام متعلقہ محکموں کی منتقلی اور مکمل بجٹ اختیارات کی فراہمی ناگزیر ہے۔ یہ سیکرٹریٹ محض علامتی نہیں بلکہ ایک عملی قدم ہو سکتا ہے جو وسیب کو ترقیاتی فیصلوں میں بااختیار بنائے گا.
اس تناظر میں، مقامی حکومتوں کا کردار بھی کلیدی ہے۔ ضروری ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو فعال، شفاف اور خودمختار بنایا جائے.ہر ضلع کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ضلع کے منتخب نمائندوں اور عوامی نمائندگی رکھنے والے اداروں کے ساتھ مل کر بغیر کسی سیاسی مداخلت یا جماعتی دباؤ کے، مقامی ترقیاتی ایجنڈے پر عملدرآمد کرے. مقامی سطح پر فیصلوں کی شفافیت، جوابدہی اور عوامی شراکت داری ہی وسیب کی اصل ترقی کی ضمانت بن سکتی ہے.
اسی طرح، صوبائی اور قومی اسمبلی میں منتخب نمائندگان کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محض پارٹی وفاداری سے بلند ہو کر، وسیب کے اجتماعی مفاد کو ترجیح دیں اور ہر فورم پر سرائیکی خطے کے لیے آواز بلند کریں.اب وقت ہے کہ نمائندے نعروں سے نکل کر عملی قانون سازی اور پالیسی سازی میں اپنا فعال کردار ادا کریں.
ساتھ ہی یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ صوبہ سرائیکستان کے قیام کا مطالبہ صرف ایک سیاسی خواہش نہیں بلکہ آئینی حق، تاریخی تقاضا اور ترقیاتی ناگزیریت بن چکا ہے. وفاقی سطح پر اس مطالبے کو سنجیدگی سے سنا جانا چاہیے اور اس ضمن میں ایک باضابطہ مشاورتی عمل کا آغاز کیا جانا چاہیے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں اور ایک قابلِ عمل روڈمیپ ترتیب دیا جائے۔
گیارہواں این ایف سی ایوارڈ، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور بلدیاتی نظام کی فعالیت؛یہ سب وہ ستون ہیں جن پر وسیب کا مستقبل کھڑا ہو سکتا ہے۔ اگر ان پہلوؤں پر خلوص نیت سے کام کیا جائے، تو سرائیکی خطہ نہ صرف اپنی محرومیوں سے نجات پا سکتا ہے بلکہ پاکستان کی وفاقی اکائیوں میں ایک متوازن، خوشحال اور فعال کردار ادا کر سکتا ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *