تحریر۔نظام الدین
ایس ایچ او صاحب نے تھانے بولا کر مجھ سے فرمایا ایسا کیا؟؟ اور کیوں؟؟ لکھتے ہو جو سرکار کے نمائندے بار بار مجھے فون کرکے تمہاری گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں ،
میں نے ایس ایچ او صاحب سے کہا اگر سرکار اور اس کے نمائندے شہر کی گلیوں محلوں میں لٹ “جانے قتل” ہونے اور سڑکوں پر ڈمپر ؤ ٹینکر کے نیچے کچلے” جانے والوں کے لواحقین کی فریاد سن لیں تو میرے پاس لکھنے کے الفاظ کہاں سے آئیں گے ؟؟
مجھے تو لکھنے کے الفاظ سرکار کی خاموشی اور بے حسی فراہم کرتی ہے تب” میں محکوم ، مجبور اور ستم زدہ لوگوں کے خیالات ، محسوسات اور جذبات کو قلم کے ذریعے اوراق کی زینت بناتا ہوں تاکہ اقتدار میں بیٹھے نمائندے مظلوموں کی خاموش چیخ کا اظہار سن سکیں ، میں ان کی خودداری کی آخری وصیت لکھتا ہوں، ان کے بکھرے ہوئے خوابوں کی تعبیر لکھتا ہوں جو کرچیوں کی صورت میں بکھر گئے ہیں وہ سب کچھ لکھتا ہوں جو ان کے وجود کے ادھورے پن سے باقی بچا ہے، ان کا وہ درد جو دل کے کسی گوشے میں دفن ہو چکا ہے۔ وہ لکھتا ہوں
میں شہرت, سیاست یا کسی خاص مقصد کے لیے نہیں لکھتا بلکہ سماج کے ایسے افراد کے جذبات لکھتا ہوں جو تھک چکے ہیں اور اپنی تھکن کو حروف کے ذریعے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کی حقیقی زندگی لکھتا ہوں ،
اور جناب ایچ ،ایس، او، صاحب یہاں سے جانے کے بعد میں پھر لکھنؤں گا شہر نا پرساں کا المیہ جس کی آغوش سب سے بڑی پناہ گا ہے، جس شہر میں پورا پاکستان سمت تو آیا ہے مگر وہ شہر خود زخموں سے چور چور ہوچکا ہے ،
ایس ایج آؤ صاحب نے مجھے وارنگ دیکراس امید پر واپس بھیج دیا!! کہ میں اب نہیں لکھوں گا مگر میں اپنی فطرت سے مجبور ہوکر پھر لکھنے بیٹھ گیا شہر کراچی کا نوحہ جسے غیروں نے تو لوٹاہی تھا مگر اس شہر کے اپنوں نے بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا ؟؟؟
ثقافت تہذیب وتمدن کا پیکر ایک شہر دہلی تھا جس کو کبھی غیر مقامی جنگجوں نے لوٹا اور اجاڑا تھا مگر ہر بار دہلی کے مقامی باشندوں نے اسے آباد و شاداب کردیا تھا ،
مگر شہر کراچی کا المیہ لکھوں یا نوحہ یآ پھر مستزادیہ لکھوں کہ اس کو اجاڑنے اور لوٹ نے والے تو بہت ہیں مگر بسانے والا کوئی نہیں ہے، شہر کراچی تو سب کا ہے مگر کراچی کا کوئی نہیں۔ سمجھ نہیں آتا شہر آشوب کا قصہ کہاں سے شروع کروں۔ آمروں کو ملزم ٹہراؤں یا سیاسی رہنماؤں پر الزام لگاؤں، اسٹیبلشمنٹ کو دوش دوں یا عوامی نمائندگان کا دامن پکڑوں، پیپلز پارٹی پر انگلی اٹھاؤں یا ایم کیو ایم کو آئینہ دکھاؤں، سرکاری محکموں کا رونا روؤں یا مقدس اداروں کو دہائی دوں، عجب مخمصہ ہے۔
اس کراچی کا احوال کہاں سے لکھنا شروع کروں جو کبھی ماضی میں روشنیوں کا شہر تھا ؟ یا پھر موجودہ حال لکھوں جو اندھیروں میں ڈوب چکا ہے، اس شہر کا قصیدہ لکھوں جہاں صبح سویرے دھولی دھلائی سڑکیں چمچماتی تھیں یا اب ٹوٹی پھوٹی شکستہ شاہراؤں کا مرثیہ، لکھوں یآ پھر چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے بڑے بڑے لوگوں کا احوال لکھوں یا عظیم الشان غیر قانونی رہائشی منصوبوں کا دکھڑا لکھوں ، یا شہر کے ٹریفک قوانین کا لکھوں جہاں موٹر وہیکل آرڈیننس 1965، قومی وہیکل آرڈیننس 2000، دفعہ 320 دفعہ 337, تعزیرات پاکستان دفعہ 279 سیکشن 99 جیسے قوانین موجود تو ہیں مگر عمل درآمد ناپید ہے اور کیا کیا آس شہر آشوب کا المیہ لکھوں ؟؟