بنیان مرصوص

تحریر۔نظام الدین

(بنیان مرصوص) ایک عربی ترتیب ہے جو قرآن مجید میں
سورۃ الصَّفْ آیت (4) میں استعمال ہوتی ہے”
’’ آللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بند ہو کر لڑتے ہیں گو یا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں”

“اور اگر وہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو، یقین جانو وہ ہی ہے جو ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے” (سورت انفال: 62)

پاکستان اور بھارت کے درمیان
جنگ بندی کا اعلان ہو چکا تھا
میڈیا نے لوگوں کی ذہن سازی کرنا شروع کردی تھی کہ آپ کا ملک جیت گیا ہے ؟ آپ کی فوج نے دشمن ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا لوگوں میں خوشی اور جشن کا ماحول تھا مگر جنگ کی حقیقتیں اتنی جلدی واضح نہیں ہوتیں دھول چھتنے کا انتظار ہوتا ہے کیونکہ نفسیاتی طور پر جنگوں میں جھوٹ بھی سچ لگتا ہے اور سچ اس دھول میں واضح نہیں ہو پاتا یا شاید ہم سچ سنا ہی نہیں چاہتے ؟ کیونکہ جنگ کے دوران عالمی سطح کا سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا بھی گمراہ کن خبروں کی گردش کا شکار رہتا ہے جسے عرف عام میں ڈیجیٹل ٹیررازم کہا جاسکتا ہے اور عالمی سطح پر اس ڈیجیٹل ٹیررازم کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی ہے؟ ان ہی سچ اور جھوٹ کی گڈمڈ خبروں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان جوہری جنگ کی باتیں گردشِ کر رہیں ہوں تب بھی سمجھ نہیں آتا کہ سچ کیا ہے؟ اور جھوٹ کیا ہے ؟ ایسے میں انڈیا ٹوڈے میں جے شنکر اور اجیت دوول کے حوالے سے خبر ائی کہ ان دونوں نے امریکی صدر سے رابط کر کے بھارت کی جانب سے بریفننگ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اپنے جوہری ہتھیاروں کو حرکت میں لا رہا ہے ؟ مگر یہ نہیں بتایا کیوں ایسا پاکستان کررہا ہے؟ انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت کے انکشافات نے ہمیں مداخلت پر مجبور کیا ٹرمپ کے اس مبینہ بیان کی کسی دوسرے زرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی مگر امریکی
چینل (سی این این) نے خبر دی کہ ایک بڑی انٹیلیجنس اطلاع کی وجہ سے امریکہ مداخلت پر مجبور ہوا ، اور اس کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہوا ، جبکہ
پاکستان اور انڈیا کی عوام اس روایتی جنگ کے دوران کسی جوہری جنگ کے خطرات سے بے نیاز دکھائی دیے کیوں ؟ اس کی بنیادی وجوہات سرحد کے دونوں جانب کا میڈیا جوہری امور پر صرف اس وقت ہی بات کرتا ہے جب خطے میں جنگ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں اور دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کے درمیان جوہری حالات سے متعلق گفتگو محض ان کے ماہرین کی بات چیت کا ایک معاملہ سمجھا جاتا ہے ؟ ایسی صورت حال میں کسی جوہری حادثے کے خطرے کے بارے میں بات کرنا محض ایک فنی یا تکنیکی نوعیت کا مسئلہ ہوتا ہے جس کا پاکستان اور انڈیا میں رہنے والے عام لوگوں کی روزمرہ زندگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا؟ نافذ العمل طریقے یا کسی پیچیدہ مشینی نظام کے بارے میں ’تھیوریز‘ موجود ہی نہیں ہے جو بتائیں کہ مشینوں میں نقائص پیدا ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک جوہری ہتھیاروں کو لے جانے والے پیچیدہ مشینی نظاموں کا تعلق ہے تو یہ معاملہ ’اگر‘ مگر ” کا نہیں بلکہ ’کس وقت ایسا ہو جائے‘ گا کا ہے حالانکہ ” پاکستان اور انڈیا کو امریکہ اور روس کے تجربات سے استفادہ کرنے کا پہلو میسر بھی ہے بلکہ ان دونوں ممالک کے تجربات اور دور اندیشی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ، کیا کیا امکانات اور خدشات و تحفظات ہو سکتے ہیں اور درپیش حالات سے کیسے نبردآزما ہوا جاسکتا ہے؟ رازداری کے پردے سے باہر آنے والی بہت ساری امریکی اور روسی سرکاری دستاویزات کے حوالے کے طور پر سکاٹ سیگان اور بی بی سی نیوز بیان کر چکے ہیں کہ جوہری حادثات سے بال بال ہی بچاؤ ہوا تھا۔ اور کئی ایسے واقعات بیان کیے ہیں جن میں حادثہ بس ہوتے ہوتے رہے گیا تھا اور سرد جنگ کے دوران تو جوہری حادثات ہو سکتے تھے۔ ان حادثات کے بارے میں علم ہونے کی بنیادی وجہ وہ قانون سازی ہے جس کے تحت ہر (25) سال بعد سرکاری دستاویزات عوام کے سامنے پیش کر دی جاتی ہیں اور وہ خفیہ نہیں رہتیں۔
پاکستان اور انڈیا میں ایسا کوئی قانون یا معاہدہ موجود نہیں لہذا دونوں ممالک کی عوام اس بارے میں کچھ جان نہیں پاتے کہ دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کے اندر کیا کچھ ہوا ؟ اور اس کا سرے سے کوئی امکان بھی نہیں ،
پاکستان اور انڈیا کی جوہری اور سلامتی کی اسٹیبلشمنٹس رازداری اور بند دروازوں میں رہنے والی مخلوق سے کوئی امید یآ امکان بھی نہیں کہ وہ اپنے دستاویزات کو عوامی مطالعہ کے لیے جاری کریں گیں جیسا کہ دیگر ممالک میں رواج قائم ہے یہ بھی ممکن نہیں کہ جوہری تنصیبات یا انتظام کے اندر کیا کچھ ہو تا رہا ہے ؟ اس کے بارے میں وہ کچھ بتا نہیں سکتے ، مثلاً انڈیا اور پاکستان میں ایسے کسی حادثے کے بارے میں ہمیں ہرگز کبھی معلوم نہیں ہو گا جس کے نتیجے میں کوئی جوہری حادثہ پیش آیا ہویا آسکتا ہو۔ لہٰذا دونوں ممالک کے اندر کسی جوہری حادثے سے متعلق خطرے پر عوامی سطح پر بحث مباحثہ یا رائے نہیں پائی جاتی جس طرح
امریکہ اور روس کے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات سے ملتی ہیں ،
جوہری دھماکوں کے بعد امریکی سفارتکاروں نے پاکستان اور انڈیا کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے حکام کے ساتھ بات چیت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ اپنے جوہری ہتھیار اور انھیں لے جانے والے نظام کو تیار یا فوری چلنے کی حالت میں نہ رکھیں اور انھیں ان مقامات سے کم از کم (100) میل کی دوری پر رکھیں جہاں سے انھیں چلایا جانا ہے تاکہ جوہری حادثے کے امکان سے بچا جا سکے۔ امریکہ اور روس کے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں بہت ساری ایسی کہانیاں موجود ہیں جس میں حادثاتی طور پر جوہری ہتھیار چلتے چلتے رہ گئے تھے۔
پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں ایسا کوئی امکان نہیں کیونکہ جوہری تاریخ کے بارے میں دستاویزات کے سامنے آنے کا سرے سے کوئی امکان موجود ہی نہیں، جبکہ موجودہ دور میں انڈیا نے بحر ہند میں جو آبدوز اتاری ہے اس آبدوزوں میں جوہری ہتھیار لے جانے والا نظام موجود ہے ،
دوسرا یہ کہ پاکستان اور انڈیا دونوں نے جوہری ہتھیار لے جانے والے نظام تیار کیے ہوئے ہیں جو فوری طور پر چلائی جانے والی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔ انڈیا کا اگنی تین اور براہموس کروز میزائل فوری طور پر چلانے کی ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور ان میں جوہری ہتھیار لے جانے والے نظام ایک ہی جگہ پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے کم فاصلے تک مار کرنے والے نصر میزائل فوری طور پر چلائے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں
آبدوز کی صورت میں ہتھیار چلانے کا اختیار پہلے سے ہی دے دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ مرکزی سیاسی اتھارٹی نے جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائل چلانے کا اختیار پہلے ہی فوجی کمانڈر کو دے دیا ہوتا ہے۔ زمین سے آبدوز کے ساتھ مسلسل رابطہ ممکن نہیں ہوتا لہذا پہلے سے ہی ہتھیار چلانے کا اختیار انھیں دے دیا جاتا ہے اور یہ ہی اصول استعمال ہوتا ہے تاہم اس کے ساتھ دو افراد کا اصول بھی لاگو کیاجاتا ہے ،
دنیا میں دو مثالیں ایسی بھی ہیں جو راز نہیں رکھی جاسکتی تھی ایک 1986 یوکرین چرنوبل کا جوہری سانحہ جو میلت ڈاؤن کی وجہ سے ہوا جس سے یورپ بھر میں تابکاری پھیلی تھی جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے ، دوسرا حادثہ 2011 میں جاپان میں سونامی سے آیا تھا جس سے جوہری پلانٹ کا کولنگ سسٹم تباہ ہوگیا تھا جس سے جوہری ری ایکٹر میلت ڈاؤن کا شکار ہوگیا تھا جس سے بڑی تعداد میں تابکاری کا اخراج ہوا تھا ، اس طرح کے حادثات اور واقعات پاکستان یا انڈیا میں کبھی رپورٹ نہیں ہوسکے ؟؟؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *