فالز فلیگ آپریشنز کا نیا باب: پہلگام

طارق خان ترین

پہلگام حملہ، جو 22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام وادی میں پیش آیا، جس میں 26 سیاحوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ یہ واقعہ حسب روایت اپنی نوعیت اور وقت کے لحاظ سے کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، خصوصاً جب بھارت نے فوری طور پر اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، بغیر کسی قابلِ اعتبار شواہد کے۔ بھارت کی حالیہ تاریخ میں متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جنہیں فالز فلیگ آپریشنز یعنی جعلی یا خود ساختہ حملے کہا جا سکتا ہے۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف پاکستان پر الزام تراشی کرنا بلکہ عالمی برادری کی ہمدردیاں حاصل کرنا اور داخلی سیاسی فائدے حاصل کرنا بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا اس حوالے سے مؤقف ہمیشہ واضح اور اصولی رہا ہے کہ خطے میں امن و استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت کی یہی حکمت عملی ہے، جو الزام، جھوٹ اور پروپیگنڈا پر مبنی ہوتی ہے۔

2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر ہونے والا حملہ ایک واضح مثال ہے۔ اس دھماکے میں 68 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں زیادہ تر پاکستانی شہری تھے۔ ابتدائی طور پر بھارت نے اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا، لیکن بھارتی تفتیشی ایجنسیوں نے بعد ازاں خود انکشاف کیا کہ یہ حملہ ہندو انتہاپسند تنظیم “ابھینو بھارت” کے ارکان نے کیا تھا، جن میں کرنل پروہت پرساد اور سوامی آسیم آنند شامل تھے۔ 2010 میں سوامی آسیم آنند نے اپنے اقبالی بیان میں بتایا کہ یہ حملہ ان کی تنظیم کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ بھارتی صحافی اور انسانی حقوق کارکن تیستا سیتلواد اور آنند تلتومبڈے جیسے افراد نے بھی اس کیس کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا، مگر بھارت کی حکومت نے اسے دبانے کی کوشش کی۔

2008 کے ممبئی حملے کے فوراً بعد بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر لگا دیا۔ پاکستانی حکومت نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے شفاف تحقیقات کی اپیل کی، لیکن بھارت نے کسی بھی مشترکہ تحقیق سے انکار کیا۔ بعد میں بھارتی پولیس افسر ستیِش ورما نے ایک عدالتی بیان میں اعتراف کیا کہ بعض اہم حملے “حکومت کے کہنے پر کرائے گئے”۔ اسی حملے کے دوران بعض مبصرین نے نشاندہی کی کہ حملہ آوروں کی نقل و حرکت، میڈیا تک ان کی رسائی، اور آپریشن کے دوران حکومتی رویہ مشکوک تھا۔ معروف امریکی صحافی ایلیکس جونز نے بھی اپنے ایک پروگرام میں اسے ایک “pre-planned inside job” قرار دیا۔

2016 کے اُری حملے کا وقت بھی قابل غور ہے، جب بھارت میں سرجیکل اسٹرائیک کا بیانیہ بنایا گیا اور پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی۔ لیکن آزاد ذرائع سے کبھی اس حملے یا جوابی کارروائی کے کوئی ناقابل تردید ثبوت سامنے نہیں آئے۔ اسی طرح 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملہ، جس میں 40 سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے، ایک ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات سے محض چند ہفتے قبل ہوا۔ اس حملے کے پس منظرپر سے پردہ اس وقت اٹھا جب میڈیا چینل ری پبلک کے اینکر اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کونسل کے سابق سربراہ پارتھو داس گپتا کے بیچ واٹس ایپ پر ہونے والے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ٹیکسٹ پیغامات منظر عام پر آئے۔ انہیں ممبئی کی ایک عدالت میں ارنب گوسوامی کے خلاف ڈیزاینر انوے نائک کی خودکشی کے ایک معاملے کے دوران پیش کیا گیا ہے۔ارنب کے واٹس ایپ میسیجز میں پلواما واقعے پر ارنب خوشی جتا کر لکھ رہے ہیں کہ ’اس حملے سے ہماری انتخابی جیت اب یقینی ہے۔‘ جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ بھی درحقیقت فالز فلیگ آپریشنز کے سلسلوں ایک حصہ ہے۔ حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری نوجوان نے لی، جو بھارت کے مظالم سے تنگ آ کر شدت پسندی کی جانب مائل ہوا تھا۔ تاہم، بھارت نے فوری الزام پاکستان پر لگا کر جنگی فضا قائم کر دی۔ اس کے بعد بالا کوٹ پر بھارتی فضائی حملہ، اور پھر پاکستان کی جانب سے بھارتی طیارہ گرانے کا واقعہ، اس بیانیے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی تھا۔

پاکستان نے ہر حملے کی مذمت کی اور حملے کے بعد شفاف تحقیقات کی پیشکش کی، اقوام متحدہ کو ڈوزیئر فراہم کیے، اور ثبوت کے ساتھ ثابت کیا کہ بھارت اپنے داخلی مسائل اور انتخابات میں فائدے کے لیے پاکستان دشمن بیانیہ استعمال کرتا ہے۔ پاکستانی قیادت بارہا اس امر پر زور دے چکی ہے کہ بھارت کا اصل مقصد نہ صرف دنیا کو گمراہ کرنا ہے بلکہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے توجہ ہٹانا بھی ہے۔ بھارت میں کئی صحافی، اس بات کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں کہ بھارتی ریاست اکثر ایسے واقعات کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرتی ہے تاکہ اندرونی طور پر قوم پرستی کو ابھارا جا سکے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کا سیاسی بیانیہ ایسے حملوں کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

پہلگام حملے کے تناظر میں پاکستان کا موقف بین الاقوامی برادری کے لیے سنجیدہ سوال چھوڑتا ہے: کیا ایسے حملے محض پاکستان کو عالمی سطح پر دباؤ میں لانے، کشمیریوں کی آواز دبانے، اور بھارت میں ہندو قوم پرستانہ بیانیے کو تقویت دینے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں؟ یا یہ بھی ممکن ہے کہ عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کیلئے پاکستان کو انگیج رکھنے کی ایک مذموم کوشش ہے؟ کیا پاکستان کو فلسطین پرایک طویل اصولی موقف سے دستبردار کرانا تو نہیں ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ 12 لاکھ فوج جہاں تعینات ہو وہاں دہشتگرد آسانی سے پانچ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے سیاحتی مقام پر پہچ جاتے ہیں؟ جن افراد کے تصاویر بھارتی میڈیا پر دکھائے جارہے ہے، خدشات میں سے ہے کہ یہ افراد لاپتہ ہے اور پہلے سے بھارتی جیلوں میں قید ہے، جن سے فالز فلیگ آپریشن کی طرح False Flag Narratives کو پروان چڑھانے کیلئے قید افراد پر دباو ڈال کر اپنے پسند کے بیانات پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ بلوچستان دہشتگردی میں بھارت کا کردار کلبھوشن یادیو، حال ہی میں گرفتار کیا گیا اشوک چترویدی کی گرفتاری کے ناقابل تردید ثبوت سے بھارت کو بری الزمہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہے اور خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہمیشہ تعمیری مکالمے کا حامی رہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی اندرونی ناکامیوں اور انتہا پسندانہ پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے، امن، انصاف اور سچائی کو ترجیح دے۔ دھمکیوں اور گیدڑ بھبکیوں سے پاکستان کو نہیں ڈارایا جاسکتا، اگر ایسی کوئی بھی حماقت بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے تو عوام پاکستان فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے، بھارت 27 فروری 2019 کو بھول جائیگا۔

عالمی برادری کی خاموشی اور مغربی طاقتوں کا دہرا معیار اس صورت حال کو مزید سنگین بناتا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر جو اصول وضع کیے گئے تھے، وہ بھارت جیسے ملک کے لیے محض سیاسی ہتھیار بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر میں بھارتی ظلم جاری ہے، اور جب پاکستان ان اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے، تو بھارت فالز فلیگ آپریشنز کے ذریعے ایک مرتبہ پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔پاکستان کا مطالبہ واضح ہے: عالمی برادری حقائق کو تسلیم کرے، غیر جانبدار تحقیقات کروائی جائیں، اور ایسے حملوں کو صرف پروپیگنڈے کی بنیاد پر ماننے کے بجائے ٹھوس شواہد پر فیصلہ کیا جائے۔ اگر بھارت کو اس طرزِ عمل سے نہ روکا گیا تو جنوبی ایشیاء کا امن ہمیشہ ایک دھماکہ خیز صورتحال کا شکار رہے گا، جس کا خمیازہ صرف پاکستان نہیں، پوری دنیا بھگتے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *