رمضان اور شیطان


تحریر۔نظام الدین

رمضان المبارک سال ، 1446 ہجری کی خریداری کرکے گھر پہنچا تو رات ہو چکی تھی خریدا ہوا سامان ایک طرف رکھ کر اس کا حساب لگاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی کا زورتو پورا سال رہتا ہے، مگر رمضان کے ماہ مقدس میں مہنگائی عام دنوں سے زیادہ کیوں بڑھ جاتی ہے؟
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بجلی چلی گئی پھر ذہن میں آیا کہ کیا پچھلے ماہ رمضان کی طرح کے الیکٹرک اس ماہ رمضان میں بھی بجلی کی آنکھ مچولی کا کھیل اسی طرح جاری رکھے گی؟؟
آخر رمضان المبارک کے مہینے میں مہنگائی جیسے دیگر خرافات کا شیطانی چکر پاکستان میں کیوں شروع ہو جاتا ہے ؟؟ جبک اس ماہ میں شیطان تو قید کرلیا جاتا ہے ؟؟
یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اندھیرے میں بستر پر لیٹ گیا ہلکی ہلکی نیند میں گھر کے باہر کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھی کہ ایسا لگا کمرے میں کوئی داخل ہوکر لیپ ٹاپ والی میز کی کرسی پر بیٹھ گیا اور آواز لگائی “نظام” صاحب” مجھے یاد کرکے سو رہے ہو ؟؟ میں نے گھبرا کر کہا کون ؟؟
آواز آئی ابھی آپ جس پر مہنگائی ، بجلی بند ہونے جیسے خرافات کا الزام لگا رہے تھے ؟؟
میں سمجھ گیا ہر سال قید ہونے سے پہلے شیطان مجھ جیسے لکھاریوں کے پاش کوئی نئی کہانی سنانے آتا ہے،
میں نے کہا کیسے ہیں سر”؟؟
شیطان ،،،، میں تو ٹھیک ہوں مگر آپ سے ایک سوال ہے ؟؟
دنیا تو مجھے شیطان کہتی ہے مگر آپ مجھے سر” کہہ کر کیوں مخاطب کرتے ہیں؟؟
میں نے کہا زمانہ آپ کو کچھ بھی کہتا ہو مگر یہ حقیقت ہے کسی زمانے میں اسلامی خلافت آپ کے سپرد کی گئی تھی اور آپ کی قربت الٰہی کی وجہ سے فرشتے بھی آپ کا احترام کرتے تھے اور پھر جو شخصیت کسی زمانے میں خدا سے ہم کلام رہی ہو اس کا رتبہ تو بہرحال عظیم ہے اب یہ الگ بات کہ آپ علم کے تکبر کا شکار ہوگئے اور بے ادب ہوکر خود اپنے پیروں پر کلاڑی مار بیٹھے ،،،
جبک ہم تو انہیں بھی سر” کہتے ہیں جنہیں انگریزوں نے اپنے لوگوں سے غداری کے بدلے سر” کا خطاب دیاتھا اور اس خطاب کی بنیاد پر وہ لوگ پاکستان پر مسلط ہوگئے ، ان میں بہت سے تو آپ کے شاگرد تھے ، اس وجہ سے آگر آپ کو سر”کہہ کر پکارا جانے تو برا کیا ہے ؟؟
اچھا چھوڑو یہ بتاؤ جب تم قید کرلیے جاتے ہو تو پھر دنیا میں قتل لڑائی جھگڑے مہنگائی رشوت جیسے واقعات پہلے سے زیادہ کیوں شروع جاتے ہیں ؟؟
شیطان ،،،
ہنسی آتی ہے مجھے حضرت انسان پر
فعل بد خود کرے لعنت کرے شیطان پر
“نظام ” صاحب میرے قید ہونے کے بعد میرے شاگرد میری قید کا ناجائز فایدہ اٹھاتے ہوئے میری غیر موجودگی میں مجھ سے زیادہ شدت سے خدائی طاقتوں کے درمیان تفرقہ فساد ہی نہیں پھیلاتے بلکہ جس منصوبے کے تحت میں نے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت گلوبلائزیشن کی شکل میں زرائع ابلاغ میں مختلف قسم کے جال بچھائے ہوئے ہیں انسان جس میں مجبور ہوکر پھنستا ہے، میرے یہ شاگرد زرائع ابلاغ میں اہل حق کے خلاف ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں ،
جبکہ قرآن میں خدا نے چودہ سو سال پہلے میرے بارے میں آگاہ کردیا تھا کہ شیطان اور اس کے شاگرد تمہیں ایسی جگہ سے تاک رہے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے مگر میں نے زرائع ابلاغ کے پلیٹ فارم سے تعبیر ؤ تفکیر اور تاویل کے عنوان سے روشن خیال جیسے جدید فتنوں کے تفرقے اور تخریبی موضوعات آپ جیسے لکھاریوں کے زریعے لکھوا رکھیں ہیں جو رمضان کے مہینے میں ایک دوسرے کامزاق اڑاتے اور مسخرے بازی کی دوڈ لگواتے ہیں یہاں میرے یہ ساگرد انسانوں کو گلیمر فیشن ریاکاری اور تفریح میں مبتلا کرنے والی طاقتوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں کہ کوئی رمضان میں سنجیدہ نہ رہے ،،
مگر “نظام” صاحب میرے یہ سب شاگرد میرا کام جتنی زیادہ شدت سے کرتے ہیں ایک ماہ قید کے دوران اسی شدت سے مجھ پر اللہ کا عذاب نازل رہتا ہے،، آگر میں واپس آکر اپنے شاگردوں کو اس عذاب سے آگاہ کردوں تو پھر دنیا میں آمن قائم ہو جائے ،،
تو سر” جو قید کے دوران تمہیں سزا ملتی ہے تو رہائی کے بعد تم یہ سب کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟؟
شیطان ،، “نظام” صاحب مجھے جو مہلت اللہ کی طرف سے دی گئی ہے وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کی لیے ہی ہے ،
اس لیے میں آخری وقت تک شکست قبول نہیں کرنے والا مجھے جب تک مہلت دی گئی ہے میں خدائی طاقتوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے اپنے تربیت یافتہ شاگردوں کے زریعے فساد کرواتا رہوں گا، اور اپنے آخری سپہ سالار دجال کے خروج کی راہ ہموار کرتا رہوں گا،
مگر سر” جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں وہ تو صراطِ مستقیم پر چلتے رہیں گے ، تمہیں پھر اس خونریزی، فساد اور خرافات سے کیا ملے گا ؟؟
شیطان ،،،، یہ بات مجھے آدم کو سجدہ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھی مگر ہائے میری نادانی میرے علم کا تکبر مجھے لے ڈوبا ،، اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ،،
ایسی وقت زور زور سے دروازہ پیٹنے سے آنکھ کھل گئی باہر بیگم کی آواز آرہی تھی جلدی اٹھ جاؤ سحری کا وقت ہوگیا ہے،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *