تحریر۔عثمان غنی
یہ سوال — “عمران خان آخر چاہتے کیا تھے؟” — نہ صرف عوامی مباحثے کا مرکز رہا ہے بلکہ پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے مناظر میں ایک اہم پہلو بھی بن چکا ہے۔ آئیے اس سوال کا تجزیہ چند مختلف زاویوں سے کرتے ہیں تاکہ ایک واضح اور غیر جانب دار تصویر سامنے آ سکے۔
سیاسی نظریہ اور بیانیہ
1. نظام کی تبدیلی
عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ “نیا پاکستان” ہے، جس کے تحت وہ ایک ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جو انصاف پر مبنی، کرپشن سے پاک اور عوام دوست ہو۔ ان کے نزدیک موجودہ نظام اشرافیہ کے فائدے کے لیے بنایا گیا ہے، جسے وہ “اسٹیٹس کو” کہتے ہیں۔
2. احتساب کا نظام
عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کو سزا دلانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی معاشی بدحالی کی بنیادی وجہ کرپشن ہے، اور وہ اسے جڑ سے اکھاڑنے کے خواہاں ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات
1. آزاد سیاست
عمران خان کا ایک اہم دعویٰ یہ رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے آزاد ہو کر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان کا فوجی قیادت سے ٹکراؤ اسی پس منظر میں دیکھا جاتا ہے۔
2. طاقت کی مرکزیت کو چیلنج کرنا
عمران خان کا بیانیہ یہ ہے کہ فیصلے پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کو کرنے چاہئیں، نہ کہ بند دروازوں کے پیچھے۔ ان کے ناقدین اسے اداروں پر حملہ قرار دیتے ہیں، جبکہ حمایتی اسے جمہوریت کی اصل روح سمجھتے ہیں۔
خارجہ پالیسی
1. خودمختار خارجہ پالیسی
عمران خان امریکہ یا کسی دوسرے طاقتور ملک کے دباؤ میں آ کر فیصلے کرنے کے خلاف ہیں۔ وہ پاکستان کو ایک خودمختار خارجہ پالیسی دینا چاہتے ہیں، جس میں قومی مفاد کو اولیت حاصل ہو۔
2. اسلامی دنیا میں قیادت کا خواب
وہ خود کو اسلامی دنیا کی قیادت کے قابل سمجھتے ہیں اور مسلم اُمہ کے اتحاد کی بات کرتے ہیں — یہ ان کے عالمی وژن کا حصہ ہے۔
عوامی فلاح و بہبود
1. ہیلتھ کارڈ، احساس پروگرام، اور سستے گھر
عمران خان کی حکومت نے فلاحی ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی اسکیمیں متعارف کرائیں، جیسے:
صحت انصاف کارڈ
احساس کفالت پروگرام
نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم
2. تعلیم اور انصاف کی فراہمی
ان کا اصرار رہا ہے کہ قوموں کی ترقی تعلیم اور انصاف سے ہوتی ہے، اور ان کا وژن ہے کہ ہر پاکستانی کو یہ بنیادی حقوق حاصل ہوں۔
اصل مقصد کیا ہے؟
اگر ہم ان تمام نکات کا خلاصہ کریں تو عمران خان کی خواہشات کو تین بڑے اہداف میں سمیٹا جا سکتا ہے:
سیاسی خودمختاری — وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا نظام بیرونی یا اندرونی طاقتور حلقوں کے بجائے عوام کی مرضی سے چلے۔
نظام کی شفافیت — وہ ایک ایسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جہاں انصاف اور احتساب سب کے لیے برابر ہو۔
عوامی طاقت — وہ چاہتے ہیں کہ عوام ہی اصل طاقت ہوں، اور انہی کی رائے کو ترجیح دی جائے۔
لیکن تنقید کیا کہتی ہے؟
ناقدین کا مؤقف
پاپولزم: بعض لوگ عمران خان کے بیانیے کو جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہیں۔
تضادات: کئی فیصلے، مثلاً یوٹرنز یا بیانات، ان کے نظریے سے متصادم نظر آتے ہیں۔
اداروں سے ٹکراؤ: کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ وہ طاقت کے حصول کے لیے اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت (2018–2022) نے کرپشن کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا، لیکن بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار اور زمینی حقائق اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔
حکومت کے اقدامات اور ان پر تنقید
عمران خان نے احتساب کے لیے نیب (NAB) اور اثاثہ جات ریکوری یونٹ (ARU) جیسے اداروں کو فعال کیا۔ ARU نے دعویٰ کیا کہ اس نے تین سالوں میں 426 ارب روپے کی ریکوری میں مدد کی۔ تاہم، ان اقدامات پر تنقید بھی ہوئی کہ یہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، اور ان کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے ۔
عملی نتائج اور عوامی تاثر
اگرچہ حکومت نے کرپشن کے خلاف اقدامات کیے، لیکن بین الاقوامی انڈیکسز اور عوامی تاثر کے مطابق ان کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ CPI کی درجہ بندی میں مسلسل گراوٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات مؤثر ثابت نہیں ہوئے ۔
نتیجہ
عمران خان کی حکومت نے کرپشن کے خاتمے کو اپنا مشن بنایا، لیکن بین الاقوامی اداروں کے اعداد و شمار اور عوامی تاثر کے مطابق، ان کے دور میں کرپشن کی صورتحال میں بہتری کے بجائے بگاڑ آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیت کے باوجود، عملی اقدامات اور ان کی شفافیت میں کمی کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
عمران خان اور پاکستان کی فوج (یا اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان اختلافات ایک پیچیدہ مگر اہم موضوع ہے، جو حالیہ پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آئیے اس معاملے کو تاریخی، سیاسی، اور ادارہ جاتی تناظر میں واضح انداز میں سمجھتے ہیں۔
پسِ منظر: ابتدا میں تعلقات کیسے تھے؟
آغاز میں ہم آہنگی
2018 میں جب عمران خان وزیرِاعظم بنے، تو ان کے اور فوج کے درمیان تعلقات انتہائی مضبوط تصور کیے جاتے تھے۔
فوج نے ان کی حکومت کو “ہائبرڈ رجیم” کہا گیا، یعنی ایک ایسی حکومت جو بظاہر جمہوری تھی لیکن درپردہ فوج کے اثر و رسوخ سے چل رہی تھی۔
قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور میڈیا کے معاملات میں عمران حکومت اور فوج کا بیانیہ ایک جیسا تھا۔
اختلافات کب اور کیوں شروع ہوئے؟
1. DG ISI کی تقرری کا تنازع (اکتوبر 2021)
عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر فوج کی تجویز پر فوراً عمل نہ کیا۔
فوج نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن عمران خان چاہتے تھے کہ جنرل فیض حمید مزید کچھ وقت تک اس عہدے پر رہیں۔
یہ پہلا بڑا موقع تھا جب وزیراعظم نے فوج کے “فیصلے” پر اختلاف کیا — جسے ادارے نے اپنی “ریڈ لائن” تصور کیا۔
2. فیض حمید کا کردار
جنرل فیض حمید کو عمران خان کے قریب سمجھا جاتا تھا۔
عمران خان چاہتے تھے کہ وہ آئندہ آرمی چیف بنیں۔
اس معاملے پر بھی عسکری قیادت اور عمران خان میں تناؤ بڑھا۔
فوج کی غیر جانب داری کا اعلان (2022)
“نیوٹرل” بننے کا دعویٰ
2022 کے آغاز میں فوج نے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا۔
عمران خان نے فوج کے اس رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ “صرف جانور نیوٹرل ہوتے ہیں”۔
اس بیان نے فوج کو براہِ راست سیاسی بحث کا موضوع بنا دیا، جو پہلے نسبتاً پسِ پردہ کردار ادا کرتی تھی۔
حکومت کا خاتمہ اور فوج کا کردار
تحریکِ عدم اعتماد (اپریل 2022)
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہیں “غیر ملکی سازش” اور “اندرونی سہولت کاروں” کی مدد سے نکالا گیا۔
وہ کھلے الفاظ میں فوج پر الزام نہیں لگاتے، لیکن ان کے حامی اور بیانیہ فوج کو “سہولت کار” قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر فوج نیوٹرل نہ ہوتی تو ان کی حکومت نہ گرتی۔
اختلافات کی شدت: 9 مئی 2023 کے واقعات
فوجی تنصیبات پر حملے
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے، جن میں فوجی عمارات (GHQ، کور کمانڈر ہاؤس) پر حملے کیے گئے۔
فوج نے ان واقعات کو “ریڈ لائن” کراس کرنے کے مترادف قرار دیا، اور پی ٹی آئی کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع کیا۔
عمران خان نے ان حملوں سے لاتعلقی ظاہر کی، لیکن فوج نے ان کے بیانیے اور جماعت کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
اصل اختلاف کی وجوہات کا خلاصہ
طاقت کی تقسیم عمران خان چاہتے تھے کہ وہ مکمل بااختیار وزیرِاعظم ہوں، جبکہ فوج کا روایتی اثر و رسوخ برقرار رہنا تھا۔
فیصلوں کی خودمختاری عمران خان فوج کی مشاورت کے بغیر خارجہ و داخلی پالیسی چلانا چاہتے تھے۔
DG ISI تنازع تقرری میں اختلاف نے تعلقات میں واضح دراڑ ڈال دی۔
نیوٹرل رہنے کا اعلان عمران خان نے اسے غداری یا کمزوری تصور کیا۔
9 مئی کے واقعات فوج نے اسے ناقابلِ معافی حملہ قرار دیا، جس سے تعلقات ٹوٹنے کی حد تک خراب ہو گئے۔
آئیے مرحلہ وار انداز میں جائزہ لیتے ہیں کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی کیسی تھی؟
بنیادی اصول
عمران خان کی خارجہ پالیسی تین بنیادی اصولوں پر مبنی رہی:
خودمختاری – پاکستان کو اپنی پالیسیز خود بنانی چاہئیں، کسی بیرونی دباؤ کے تحت نہیں۔
امتِ مسلمہ کا اتحاد – اسلامی ممالک کو متحد کرنے اور مشترکہ آواز بلند کرنے کی خواہش۔
امن اور ترقی کا بیانیہ – جنگ سے اجتناب اور معاشی ترقی پر زور۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات
تناؤ اور عدم اعتماد
عمران خان نے اکثر امریکہ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، خاص طور پر “وار آن ٹیرر” میں پاکستان کے کردار کو۔
2022 میں حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے “امریکہ کی سازش” کا بیانیہ اپنایا، جس کے تحت کہا گیا کہ امریکہ نے “رجیم چینج” میں کردار ادا کیا۔
“Absolutely Not”
جب امریکی میڈیا میں پوچھا گیا کہ کیا عمران خان امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے دے گا؟ تو اس نے مشہور جملہ کہا: “Absolutely Not” — جس نے انہیں مقبولیت تو دی، مگر سفارتی سطح پر تناؤ بھی پیدا کیا۔
چین کے ساتھ تعلقات
مضبوط اور مستحکم
عمران خان نے چین کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تسلسل کا وعدہ کیا، حالانکہ پراجیکٹس کی رفتار کچھ سست ہو گئی۔
چین کے ساتھ تعلقات کو “آئرن برادرز” کا رشتہ قرار دیا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات
تعلقات میں اتار چڑھاؤ
آغاز میں تعلقات میں کچھ تناؤ پیدا ہوا، خاص طور پر جب عمران خان نے او آئی سی (OIC) کے متبادل ایک اسلامی بلاک کی بات کی (جس میں ترکی، ایران اور ملائیشیا شامل تھے)۔
سعودی عرب ناراض ہوا اور بعض مالی امداد واپس لی گئی۔
بعد میں عمران خان نے خود سعودی عرب جا کر تعلقات بحال کیے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات
عمران خان نے ابتدا میں بھارت سے امن کی خواہش کا اظہار کیا تھا: “You take one step, we will take two.”
لیکن مودی حکومت کے اقدامات، خاص طور پر 5 اگست 2019 کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد، عمران خان کا بیانیہ سخت ہو گیا۔
انہوں نے مودی حکومت کو “فاشسٹ” اور “RSS نظریے” کا نمائندہ قرار دیا۔
افغانستان اور طالبان
عمران خان نے طالبان کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دی۔
انہوں نے امریکہ کے افغانستان سے انخلا کو سراہا اور کہا کہ “افغان عوام نے غلامی کی زنجیروں کو توڑا۔”
اس بیان پر بین الاقوامی سطح پر تنقید ہوئی کہ یہ طالبان کی حمایت کے مترادف تھا۔
اقوامِ متحدہ اور عالمی فورمز پر مؤقف
مؤثر بیانیہ
عمران خان نے اقوام متحدہ میں کشمیر، اسلاموفوبیا، اور فلسطین جیسے موضوعات پر بھرپور انداز میں آواز بلند کی۔
ان کی تقریریں جذباتی اور نظریاتی رنگ لیے ہوئے تھیں، جس سے مسلم دنیا میں پذیرائی ملی۔
برحال عمران خان کا دورِ حکومت (2018–2022) ایک مخلوط، متنازع مگر تاریخ ساز دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اُن کا دور نہ صرف سیاسی منظرنامے کو بُری طرح ہلا گیا بلکہ پاکستان کے ادارہ جاتی توازن، عوامی شعور، میڈیا کی آزادی، اور فوجی اثر و رسوخ پر بھی گہرا اثر چھوڑ گیا۔