تحریر۔نظام الدین
قرآن کریم کی
سورت المائدہ 8 اور 42 میں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے!!
بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ،
عدل کرو یہ ہی تقوی کے زیادہ قریب ہے،
یوں تو پاکستان کے عدالتی نظام میں کئی نامور شخصیات نے اپنی خدمات سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ان ہی میں ایک معتبر نام ایڈوکیٹ محمد اکرم کا ہے جو ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر کراچی کی مختلف عدالتوں میں فرائض انجام دے چکے ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے نجی وکالت کے زریعے انصاف کی خدمت جاری رکھی ہوئی ہیں ان سے ایک انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے عدالتی نظام کے مسائل اور مسقبل کی اصلاحات پر کھل کر اس وقت بات ہوئی جب دنیا کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ آیا انڈیا پاکستان کے درمیان جنگ ہو گی یا نہیں ؟ کیونکہ یہ بات تشویش ناک ہے کہ دونوں ممالک ہی جویری ہتھیاروں سے لیس ہیں اس صورتحال میں ہمارا عدالتی نظام انصاف فراہم کررہا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ برطانوی وزیر اعظم چرچل نے جنگ عظیم کے دوران اپنی عوام کو ایک پیغام دیتے ہوئے کہا تھا اگر ملک کی عدالتوں میں شہریوں کو انصاف مل رہا ہے تو پھر جرمن کیا دنیا کی کوئی سپر طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی ؟ اکرم صاحب نے گفتگو کو آگے بڑھانے ہوئے بتایا کہ کسی بھی ریاست یا ملک کے نظام کے تین بنیادی ستونوں ہوتے ہیں اس میں عدلیہ کو نمایاں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عدالتی نظام ہی ریاستی امور میں پیدا ہونے والے تنازعات کے بروقت اور منصفانہ حل کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے۔ عدلیہ نہ صرف ریاستی نظام میں توازن برقرار رکھتی ہے، بلکہ فرد اور ریاست کے درمیان، نیز دو افراد کے مابین تنازعات کو منصفانہ طریقے سے حل کر کے حقوق کی پاسداری کو یقینی بناتی ہے۔ عدلیہ کا بنیادی مقصد ہی انصاف کی فوری اور مساوی فراہمی ہے، چاہے فریق کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔
اگر کسی معاشرے میں عدل طبقاتی تفریق کا شکار ہوجائے تو وہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے ،
عدل سے مراد ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا اور ہر فرد کو اس کا جائز حق دینا ہے۔
آج بعض ترقی یافتہ ممالک، جیسے سویڈن، ناروے اور کینیڈا میں عدلیہ کا نظام شفافیت، مساوات اور فوری انصاف پر مبنی ہے۔ ان ممالک میں عدالتی فیصلے شفافیت کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی تیز اور عوام کو عدالتوں تک رسائی حاصل ہے۔ قوانین کا اطلاق بلاتفریق ہوتا ہے۔ عدلیہ کسی بھی سیاسی یا حکومتی دباؤ سے آزاد ہوتی ہے، جس سے فیصلوں کی غیر جانبداری یقینی بنتی ہے۔
پاکستان کا عدالتی نظام بنیادی طور پر برطانوی نوآبادیاتی دور سے وراثت میں ملا ہے،جو برٹش کامن لا پر مبنی ہے۔ملکی ضروریات کے مطابق کی گئیں بعض ترامیم بھی برٹش لاء کا چربہ ہیں،عدالتی ڈھانچے اور طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیاں ابھی تک نہیں کی جاسکیں۔
پاکستان کا عدالتی نظام بنیادی طور پر تین درجوں میں تقسیم ہے
سپریم کورٹ ملک کا اعلیٰ ترین عدالتی ادارہ ہے، جو آئین کی تشریح، بنیادی حقوق کے تحفظ اور آئینی تنازعات کے فیصلوں کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ عدالت تمام ماتحت عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کا بھی اختیار رکھتی ہے اور حتمی عدالتی اپیل کے طور پر کام کرتی ہے۔
پاکستان کے ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ قائم ہے، جو ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتی ہے۔ہائی کورٹس مخصوص آئینی و قانونی معاملات،عوامی مفاد کے مقدمات اور بنیادی حقوق سے متعلق درخواستوں کی سماعت کا اختیار رکھتی ہیں
ضلعی عدالتیں جو نچلی سطح پر کام کرنے والی عدالتیں ہیں جو ابتدائی نوعیت کے دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔
سیشن جج سنگین نوعیت کے فوجداری مقدمات سنتا ہے، جب کہ سول جج دیوانی معاملات کا فیصلہ کرتا ہے۔
پاکستان میں دیگر خصوصی عدالتی ادارے بھی قائم ہیں:
•فیڈرل شریعت کورٹ:
یہ عدالت اسلامی قوانین کے نفاذ اور ان سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ اس کا مقصد ملکی قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق پرکھنا اور اس میں مطابقت پیدا کرنا ہے۔
خصوصی ٹربیونلز:
مختلف نوعیت کے قانونی تنازعات کے حل کے لیے متعدد ٹربیونلز قائم کیے گئے ہیں، جیسے کہ ٹیکس ٹربیونل، لیبر کورٹ، انسدادِ دہشت گردی عدالتیں اور احتساب عدالتیں جو مخصوص مقدمات کی سماعت کرتی ہیں۔
پاکستان کا موجودہ عدالتی نظام کئی دہائیوں سے مختلف خامیوں اور مسائل کا شکار ہے۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر، کرپشن، طبقاتی تفریق اور سیاسی دباؤ جیسے عوامل نے عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے۔
پاکستانی عدلیہ کو سب سے بڑا چیلنج مقدمات کے طویل التوا کا ہے ایک تحقیق کے مطابق سال 2024 میں
سپریم کورٹ میں 56,155 مقدمات زیر التوا ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 1.8 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ ججز کی کمی، عدالتی عملے کی نااہلی اور عدالتی وسائل کی قلت ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سائلین کو سالوں تک انصاف کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی عدالتی نظام میں کرپشن ایک بڑا مسئلہ ہے، جہاں طاقت ور اور با اثر افراد انصاف کے اصولوں کو اپنے حق میں موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔طبقاتی فرق نے عدلیہ کے وقار کو مزید کمزور کر دیا ہے۔امیر طبقہ مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کرکے یا رشوت کے ذریعے فیصلے اپنے حق میں کروا لیتا ہے،جب کہ غریب افراد انصاف کے حصول میں ناکام رہتے ہیں، کیوں کہ وہ مہنگے قانونی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
پاکستان میں عدلیہ پر سیاسی اثر و رسوخ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ججز کی تقرری اور عدالتی فیصلے بعض اوقات حکومتی اور طاقتور حلقوں کے مفادات کے تابع نظر آتے ہیں،جو انصاف کے اصولوں اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔سیاسی دباؤ کی موجودگی انصاف کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھاتی ہے،جو ایک آزاد عدلیہ کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان میں ایک مؤثر، شفاف، اور عوام دوست عدلیہ کا قیام ناگزیر ہے، جس میں درج ذیل خصوصیات شامل ہوں
عدلیہ کے نظام کو قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق استوار کیا جائے تاکہ انصاف فوری، غیر جانبدار اور مساوی ہو۔
اسلامی عدلیہ کے ماڈل سے راہ نمائی لے کر کرپشن، ناانصافی اور طبقاتی تفریق جیسے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔
ججز اور عدالتی عملے کی کارکردگی اور غیر جانبداری کو جانچنے کے لیے ایک خودمختار ادارہ قائم کیا جائے۔
مقدمات کے اندراج، سماعت اور فیصلوں کے عمل کو ڈیجیٹلائز کیا جائے، تاکہ عدالتی کارروائیوں میں شفافیت اور رفتار پیدا ہو۔
ویڈیو کانفرنسنگ اور آن لائن عدالتی نظام کو فروغ دیا جائے، تاکہ سائلین اور وکلا کو سہولت حاصل ہو۔
عدلیہ میں کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے سخت نگرانی اور آزاد احتسابی نظام متعارف کرایا جائے۔
پاکستان کا عدالتی نظام فوری تبدیلی کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ تبدیلی تب ہی ممکن ہو گی، جب ملک میں ایک اعلیٰ نظریے پر تربیت یافتہ قیادت موجود ہو جو ملکی نظام کو یکسر تبدیل کرسکے کیونکہ عدالتی نظام ہی انصاف کو فوری فراہمی کے نظام کو یقینی بناتا ہے اور عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پولیس کے نظام میں اصلاحات لانا ضروری ہے کیونکہ ، پولیس کا ناقص تحقیقاتی نظام ، ایس ایس پی اور ڈی ائی جی صاحبان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تفتیشی افسر عدالت میں ملزم کو مجرم ثابت نہیں کر پاتا اور عدالت عدم ثبوتوں اور گواہان کے بیانات کے بغیر ملزم کو مجرم قرار نہیں دے سکتی جس کا فایدہ جرائم پیشہ عناصر اٹھا رہے ہیں اور جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، جاری ہے ،،